تلنگانہ اور آندھرا پردیش دونوں ریاستوں کا دارالحکومت شہر کہنے کو تو ’گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن ‘ (GHMC) ہے لیکن شہر میں اکثر مقامات پر ’گریٹر‘ جیسی کوئی بات نہیں، بلکہ سڑکوں کی حالت، بے ہنگم راستوں اور غیرمنصوبہ بند تعمیرات کے پیش نظر کوئی چھوٹا شہر یا ٹاون معلوم ہوتا ہے۔ خاص طور پر اولڈ سٹی کا بُرا حال ہے۔ کہیں کہیں اب ماسٹر پلان ہونے لگا ہے لیکن مجموعی طور پر دیکھیں تو پرانا شہر کا بیشتر حصہ بلدی اعتبار سے زبوں حالی کا شکار ہے۔
نیو سٹی میں مرکزی مقامات اور پاش علاقوں جیسے بنجارہ ہلز وغیرہ کو چھوڑ کر دیگر علاقوں اور محلوں کا بھی کچھ پرانا شہر جیسا ہی حال ہے۔ مثال کے طور پر راج بھون روڈ کے قریب ایسی بستیاں ہیں جہاں بلدی سہولتیں معیاری نہیں ہیں حالانکہ قریب میں ریاست کے اولین شہری کی سرکاری قیام گاہ واقع ہے۔ متحدہ آندھرا پردیش میں ایک وقت تھا جب حیدرآباد میٹرو سٹی بننے کی بھرپور سعی کررہا تھا لیکن مرکز سے منظوری نہیں مل سکی۔ پھر بھی اب شہر میں میٹرو ریل سرویس شروع ہوچکی ہے جو ملک کے چند شہروں میں ہی ہے۔ 
شہر میں سڑکوں کی حالت خاص طور پر موسم برسات میں مصیبت بن جاتی ہے۔ جگہ جگہ گڑھوں کے سبب حادثات پیش آتے ہیں۔ بارش کے موسم کی شروعات ہوچکی ہے۔ اب تک سڑکوں کی مرمت وغیرہ کا کام نہیں کیا جاسکتا۔ جی ایچ ایم سی اور حکومت میں ایک بڑی خامی کوئی مسئلے کو پیشگی تاڑ لینے کی ہے۔ چنانچہ وہ بارش کے موسم سے قبل غفلت کا شکار رہتے ہیں اور یہ سلسلہ ہر سال چلتا رہتا ہے۔ موسم بارش کے بعد سڑکیں ضرور بچھائی جاتی ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے مختلف محکموں میں مناسب تال میل کا فقدان ہے۔ جیسے سڑک کا کام ہوجانے کے بعد ڈرینج یا پھر واٹر پائپ لائن کے لیے کھدوائی ہوتی ہے۔ اگر سڑک کی تعمیر، ڈرینج لائن اور واٹر پائپ لائن والوں میں اچھا تال میل ہو تو شہریوں کو راحت مل سکتی ہے۔
سڑکوں کے معاملے میں ایک دیگر وجہ معیار ہے۔ اکثر و بیشتر دیکھنے میں آرہا ہے کہ کنٹراکٹر غیرمعیاری سڑکیں بچھا دیتا ہے اور بل پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد سڑک کی جانچ اور بل پاس کرنے کا عمل معیار پر مفاہمت کرتے ہوئے تکمیل کردیا جاتا ہے۔ اب ایسا کیوں ہوتا ہے، اس کے پیچھے کس کس کا فائدہ ہے، یہ سمجھنا بہت مشکل نہیں ہے۔ تاہم، نقصان تو صرف شہریوں کا ہورہا ہے۔



Find out more: