وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ روز اپنے یوم آزادی خطاب میں افغانستان کے 100 سال کی تکمیل کا ذکر کیا اور قدیم ملک کو مبارکباد دی‘ جس کے بھارت سے ہمیشہ دیرینہ مراسم رہے ہیں۔ یوم آزادی ہند کے موقع پر دوشنبہ 19 اگست 2019 کو افغانستان کے مجوزہ سو سالہ جشن کا تذکرہ ہوا تو مجھے کچھ حیرانی ہوئی کیوں کہ میں نے قیاس نہیں کیا تھا کہ افغانستان کے قیام کو بھارت کی آزادی کے 72 سال سے بہت زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔چنانچہ میں نے افغانستان کے بارے میں کچھ جانکاری حاصل کرنے اور قارئین سے شیئر کرنے کا فیصلہ کیا۔
افغانستان خاصی قدیم سرزمین ہے جہاں عرصہ دراز تک غیرمنظم حکمرانی چلتی رہی‘ یہاں تک کہ 1709 میں ہوتکی سلطنت قائم ہوئی۔ پھر اس کی جگہ 1747 میں درانی سلطنت نے لے لی۔ 1823 میں امارت قائم ہوئی۔ آخرکار 19 اگست 1919 کو افغانستان کو مسلمہ ملک کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔ تاہم، 1926 میں بادشاہت لوٹ آئی جو 17 جولائی 1973 تک چلی‘ جب یہ ملک جمہوریہ بن گیا اور تب سے یہی موقف برقرار ہے۔ البتہ موجودہ دستورِ افغانستان 26 جنوری 2004 سے رائج ہے۔
جب مسلمہ افغانستان کے 100 سال کا ذکر ہوا‘ تب مجھے سب سے زیادہ تعجب اور افسوس اس بات پر ہوا کہ 1947 میں انگریزوں کے ہاتھوں لوٹا ہوا بھارت آج ترقی پذیر ملکوں میں کافی نمایاں مقام پر ہے لیکن 99 فی صد سے زیادہ مسلم اکثریت کا حامل ملک اب تباہی و بربادی کی تصویر بن چکا ہے۔ خاص طور پر گزشتہ 25 تا 30 سال سے افغانستان پہلے روسی تسلط کو ختم کرنے، پھر خانہ جنگی، اور پھر ناعاقبت اندیشانہ حکمرانی کے بعد سے امریکہ کی قیادت میں عالمی طاقتوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ حامد کرزئی ہوں کہ اشرف غنی ‘ ان کی حکومتیں کتنی موثر رہی ہیں، جگ ظاہر ہے۔ 
روس سے لڑائی کے لیے امریکہ نے طالبان کی مدد اور حوصلہ افزائی کی۔ جب روس کا افغانستان سے نکالا ہوگیا اور امریکی مقصد کی تکمیل ہوگئی، تب یہی طالبان ’دہشت گرد‘ قرار دیئے گئے۔ پھر 2001 میں 9/11 کے بعد سے افغانستان میں جو کچھ ہوتا رہا، میرے خیال میں اس کی تفصیل یہاں بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے۔ بہرحال یہ المیہ ہے کہ تقریباً 3.25 کروڑ آبادی اور لگ بھگ 6.5 لاکھ مربع کیلومیٹر کا حامل افغانستان آج نہ صحیح معنوں میں اسلامی ملک ہے‘ اور نہ ہی دنیوی ترقی کے اعتبار سے کوئی مقام حاصل کرپایا ہے۔

Find out more: