راجے رجواڑوں کا دور ہندوستان میں ختم ہوچکے کئی دہے بیت چکے ہیں اور اس کی جگہ عوامی جمہوریت نے لے لی ہے لیکن وقفے وقفے سے بعض لیڈروں کے رویہ، طرزعمل، اندازِ کارکردگی اور عوامی مسائل پر ان کے ردعمل سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’راجا‘ اور ’پرجا‘ کا سسٹم ذہنی نظام میں کہیں نہ کہیں ہنوز موجود ہے حالانکہ ملک کو جمہوریہ بنے تقریباً 70 سال ہورہے ہیں۔ بادشاہ یا مہاراجہ کی طرز حکمرانی میں ایک اصطلاح ’راج ہٹ‘ عام طور پر سننے ، پڑھنے اور لکھنے میں آتی ہے۔ اس کا سادہ مفہوم یوں ہے کہ راجا کسی معاملہ یا مسئلہ پر دفعتاً کوئی موقف اختیار کرلے، چاہے وہ ابتدائی طور پر درست معلوم ہو یا نہ ہو، ان کی انا و اکڑ اجازت نہیں دیتی کہ اس موقف پر آگے چل کر نظرثانی کی جائے اور اپنے ابتدائی موقف کے برعکس فیصلہ کیا جائے۔
چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر شاید ’راج ہٹ‘ کا شکار ہیں کہ انھیں اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی 15 روز مکمل ہوچکی ہڑتال کے باوجود عوامی مفاد میں اپنے موقف کو نرم کرنے اور متعلقہ ہڑتالی نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملہ کی یکسوئی کا خیال تک نہیں آرہا ہے۔ وہ ہٹ دھرمی کئے جارہے ہیں۔ اور اب تو 50,000 کیابس بھی سڑکوں سے غائب ہوگئی ہیں۔ ان کے بھی بعض مطالبات ہیں۔ جمہوریت میں ہڑتال کوئی نئی بات نہیں۔ ملازمین اور ورکرز وقفے وقفے سے اپنے معقول اور بعض نامعقول مطالبات پر بضد ہوجاتے ہیں۔ تاہم، جمہوریت میں ایسے مسائل سے نمٹنے کا یہ طریقہ نہیں ہوتا کہ ہڑتالیوں کو دھمکیاں دی جائیں، جیسے کہ وہ کوئی سماج دشمن عناصر ہیں اور صد فیصد ناجائز تقاضے کررہے ہیں؟
کے سی آر توہم پرست پہلے سے ہیں جو جگ ظاہر ہے، اب غالباً وہ متشکی بھی ہوگئے ہیں، وہ اپوزیشن کو ایسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں جیسے وہ تلنگانہ کی سرزمین سے تعلق نہیں رکھتے۔ آر ٹی سی ہڑتال پر وہ بظاہر وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ سب انھیں اور ٹی آر ایس حکومت کو پریشان کرنے اپوزیشن کی سازش ہے۔ اگر چیف منسٹر ایسا سمجھے تو مطلب یہی ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ لگ بھگ 50,000 آر ٹی سی ملازمین بھی سازش کا حصہ ہیں۔ کیا سیاسی لیڈروں کے علاوہ عام ملازمین میں بھی سیاستدان ہوتے ہیں جو اپنی نوکری، اپنی فیملی اور خود کو جوکھم میں ڈالتے ہوئے حکومت کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔ ایک سے زائد ہڑتالی ملازمین دلبرداشتہ ہوکر خودکشی کرچکے ہیں۔ کیا یہ بھی سازش کا حصہ ہے؟
مختصر یہ کہ چیف منسٹر کے سی آر کو اپنے رویہ میں تبدیلی لانا ہوگا کیوں کہ ہفتہ کو ٹی ایس آر ٹی سی ہڑتال کی تائید میں ریاست گیر بند منایا گیا، جو صد فیصد کامیاب بتایا گیا۔دارالحکومت حیدرآباد اور 32 دیگر اضلاع میں ٹرانسپورٹیشن میں خلل پڑا۔ مصیبت پر مصیبت کے مصداق زائد از 50,000 کیاب گاڑیاں بھی جو عوام کی روزمرہ نقل و حرکت کا اہم حصہ بن چکی ہیں، ہفتہ کو ریاست بھر میں سڑکوں سے غائب رہیں۔ اس طرح ’اولا‘ اور ’اوبر‘ کیاب ڈرائیورس بھی ٹرانسپورٹ ہڑتال میں شامل ہوگئے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ متعلقہ سرویس کا ریگولرائزیشن کیا جائے۔
ہفتہ کو صبح 5 بجے سے 12 گھنٹے کا بند زیادہ تر بس ڈپو میں کافی سخت سکیورٹی کے ساتھ شروع ہوا۔ مہاتما گاندھی بس اسٹیشن جو حیدرآباد کا سب سے بڑا بس اسٹیشن ہے، وہاں سے تلنگانہ اور پڑوسی ریاستوں میں کسی بھی منزل کیلئے کوئی بس نہیں چلائی گئی۔ یونین لیڈر وی ایس سی ایس ریڈی نے بتایا کہ پرائیویٹ ڈرائیورس اور کنڈکٹرس کو بتایا گیا تھا کہ وہ آج ہڑتال پر ہیں اور اگر وہ ہماری بسیں چلاتے ہیں تو اپنے جوکھم پر ایسا کررہے ہوں گے۔ تمام نے ہم سے تعاون کیا ہے۔حتیٰ کہ جن پرائیویٹ ڈرائیورس اور کنڈکٹرس کی خدمات ہڑتال کے پیش نظر حکومت نے حاصل کی ہے، ان کی بیشتر بسیں بھی نہیں چلائی گئیں۔ ہفتہ کے بند کو اپوزیشن پارٹیوں کی بھرپور تائید حاصل رہی، جیسے کانگریس، بی جے پی، تلگودیشم پارٹی، تلنگانہ جنا سمیتی، جنا سینا، سی پی آئی۔ایم۔ نیز ٹریڈ یونینس اور ملازمین کی مختلف تنظیموں، ٹیچروں اور ورکرس نے بھی بند کی تائید و حمایت کی۔ کے لکشمن اسٹیٹ بی جے پی چیف جو احتجاجوں کے دوران تحویل میں لئے جانے والے متعدد قائدین میں سے ہیں، انھوں نے کہا کہ کے سی آر کسی بادشاہ کی طرح آمرانہ طرز اختیار کرتے جارہے ہیں۔ وہ کسی کی بات سننے تیار نہیں، حتیٰ کہ عدالتوں کی بھی نہیں، جنھوں نے کہا ہے کہ حکومت کو لازماً ہڑتالیوں سے بات چیت کرنا چاہئے۔ لکشمن نے کہا کہ ریاستی یونٹ مرکزی پارٹی قیادت کو اس مسئلہ پر ایک رپورٹ بھیج رہی ہے۔
۔۔۔