بابری مسجد کی تاریخ میں اب تک 6 ڈسمبر 1992 کا دن تاریخی تھا، اب 9 نومبر 2019 کا روز بھی اس صف میں جڑگیا ہے۔ خدا ، خدا کرکے سپریم کورٹ نے متنازع رام جنم بھومی۔ بابری مسجد ملکیتی اراضی میں اپنے فیصلہ کا اعلان عدالتی روایت سے ہٹ کر آج ہفتہ کو اعلان کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایودھیا کیس میں متفقہ فیصلہ دیا اور کہا کہ ساری متنازعہ 2.77 ایکڑ اراضی ہندو فریقوں کو دی جائے۔ اس نے پانچ ایکڑ کی متبادل اراضی سنی مسلم وقف بورڈ کو دینے کا حکم بھی دیا ہے۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی والی بنچ نے دیا، جس میںجسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنذیر شامل رہے۔
سپریم کورٹ نے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی رپورٹ 2003 کا نوٹ لیا، جس میں بیان کیا گیا کہ بابری مسجد کے نیچے کوئی ڈھانچہ موجود تھا۔ اگرچہ یہ رپورٹ متنازع ہے، لیکن عدالت نے کہا کہ اسے قیاس سمجھتے ہوئے خارج نہیں کیا جاسکتا ہے، اور یہ کہ منہدمہ بابری مسجد کے نیچے پائے گئے ڈھانچہ کے آثار اسلامی نوعیت کے ڈھانچے کے نہیں۔ ویسے اے ایس آئی نے یہ تو نہیں کہا کہ آیا کوئی ہندو مندر کو منہدم کرکے مسجد تعمیر کی گئی۔
الہ آباد ہائیکورٹ نے 2010 میں جبکہ اترپردیش میں بی جے پی اقتدار تھا، نہ مرکز میں مودی حکومت ، ایودھیا کی 2.77 ایکڑ متنازع اراضی کو تین فریقوں میں ایک، ایک تہائی تقسیم کردینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے سارے فریق اور بعض دیگر بھی سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے، جو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے، اور اس نے پیچیدہ کیس کی لگاتار 40 روزہ سماعت کے بعد گزشتہ ماہ اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ 17 نومبر کو سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی نے پانچ رکنی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے آج جو فیصلہ کا اعلان ہے، اس نے مودی حکومت، یوگی حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس کا کام آسان کردیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر بی جے پی کا ہندو ووٹ بینک عملاً بہت مضبوط ہوگیا ہے۔
سپریم کورٹ میں مقدمہ شروع ہونے سے قبل میرا اندازہ تھا کہ مذہبی اعتقاد کے عنصر والے اس پیچیدہ کیس کا فیصلہ کرنا فاضل عدالت کے بس کی بات نہ ہوگی اور وہ اس معاملے کو عاملہ (ایگزیکٹیو یعنی حکومت) اور لیجسلیچر (مقننہ یعنی پارلیمان) پر چھوڑ دے گی۔ اس کے بعد مودی حکومت کچھ اسی طرح کے اقدامات کرے گی جیسے تین طلاق اور آرٹیکل 370 کے معاملوں میں کیا گیا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اے ایس آئی کی 16 سال قبل کی رپورٹ نے جب کہ بی جے پی لیڈر واجپائی زیرقیادت حکومت قائم تھی، سپریم کورٹ کے فیصلہ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حالانکہ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی بنچ کے فیصلہ سے یہ جملہ میل نہیں کھاتا ہے: ”ویسے اے ایس آئی نے یہ تو نہیں کہا کہ آیا کوئی ہندو مندر کو منہدم کرکے مسجد تعمیر کی گئی۔“ بہرحال موجودہ ’آمرانہ‘ حکمرانی میں رام مندر کی تعمیر کی طرف جانے والا راستہ میرے قیاس کے برخلاف سپریم کورٹ کے ذریعے طے کرلیا گیا، لیکن افسوس کہ میرا اصل اندیشہ درست ثابت ہوا کہ مودی اور یوگی کی حکومتیں مندر تو منہدمہ مسجد کی جگہ ہی بنائیں گے۔
پانچ ججوں کی بنچ نے کہا کہ سنی وقف بورڈ اراضی پر اپنا خاص حق ثابت نہیں کرسکا اور یہ کہ ساری اراضی کو یکساں تصور کیا جائے۔ عدالت نے خصوصی مرافعہ خارج کردیا جو شیعہ وقف بورڈ نے داخل کرتے ہوئے فیض آباد کی ایک عدالت کے 1946 کے حکمنامہ کے جواز کو چیلنج کیا تھا۔ اُس حکمنامہ میں بیان کیا گیا کہ یہ جائیداد سنی ہے ، نہ کہ شیعہ۔
فاضل عدالت نے یہ ضرور کہا کہ مسجد کی بے حرمتی مورتیاں رکھ کر کی گئی، اور ڈسمبر 1992 میں مسجد کا انہدام سپریم کورٹ آرڈر کی خلاف ورزی میں ہوا۔ علاوہ ازیں، اس نے بیان کیا کہ الہ آباد ہائیکورٹ نے متنازع اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے ہر فریق کو ایک تہائی حصہ عطا کرنے کا غلط موقف اختیار کیا۔
متنازعہ اراضی کا قبضہ مرکز کے پاس ہے اور اب وہ وہاں مندر کی تعمیر کیلئے بورڈ آف ٹرسٹیز کیلئے کوئی اسکیم وضع کرے گا۔ متنازعہ اراضی جس میں داخلی اور بیرونی برآمدے شامل ہیں، اسے مرکز کی جانب سے ٹرسٹیز کے حوالے کیا جائے گا۔ مرکز بقیہ اراضی بھی ٹرسٹیز کے حوالے کردے گا۔ ٹرسٹ اندرون تین ماہ قائم کیا جائے گا اور مندر کی تعمیر کا انتظام سنبھالے گا۔ اس ٹرسٹ میں نرموہی اکھاڑہ کیلئے مناسب نمائندگی رہے گی۔
٭٭٭