مجھے یقین ہے یہ تحریر پڑھنے کے بعد آپ میرے بارے میں اچھی یا خراب رائے ضرور قائم کریں گے، ضرور کیجئے، مگر پوری تحریر پڑھے بغیر نہیں۔ شکریہ۔
بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی کی متنازع اراضی کے ملکیتی مقدمہ کا گزشتہ روز (ہفتہ 9 نومبر 2019 ) سپریم کورٹ کی پانچ رکنی دستوری بنچ (چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ایس عبدالنذیر) نے متفقہ فیصلہ کرتے ہوئے 1992 میں منہدمہ مسجد سے متعلق ساری اراضی ہندو فریق کے حوالے کرنے اور ایودھیا میں ہی مسلمانوں کیلئے مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں علحدہ پانچ ایکر اراضی فراہم کرنے کی بھی حکومت کو ہدایت دی ہے۔ صدیوں قدیم پیچیدہ مذہبی مسئلے کا جن سپریم کورٹ ججوں نے قطعی فیصلہ سنایا، ان سطور میں اس کا خلاصہ کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ فیصلہ سنانے سے قبل جس طرح کا سکیورٹی بندوبست کیا گیا اور بڑی اقلیتی برادری کے ساتھ اکثریتی کمیونٹی کی طرف سے بالخصوص آر ایس ایس نے ملاقاتیں کرتے ہوئے جس طرح ذہن سازی کی، اور پھر فیصلہ آنے کے بعد مسلمانوں نے جس طرح صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، وہ ایک طرح سے اچھا بھی ہے اور دیگر پہلو سے دیکھیں تو خراب بھی ہے۔ عام مسلمان تو خیر معلومات کی کمی، قانونی پہلووں اور ثبوت کی اہمیت سے عدم واقفیت کی بناءبرہمی کے عالم میں ہے لیکن وہ صرف نکڑوں، چبوتروں، گھروں اور دفتروں تک محدود ہے، جس سے دنیا کی حقیقتیں بدلا نہیں کرتیں۔ بڑی نمائندہ تنظیموں جیسے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، سنی مسلم وقف بورڈ وغیرہ کے موقف میں یکسانیت نہیں ہے؛ کوئی کہہ رہا کہ ہوسکتا ہے ہم سپریم کورٹ میں اس فیصلہ کے خلاف مرافعہ داخل کریں گے، تو دیگر کا موقف ہے کہ 9 نومبر کے فیصلہ کو چیلنج نہیں کیا جائے گا۔
معزز قارئین کرام، یہ اہم دینی مسئلوں میں ہم مسلمانوں کا اس قدر اختلاف ہی تو ہے کہ اغیار مسلسل فائدہ اٹھائے جارہے ہیں، اور ہم واویلا پر اکتفا کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں مسلمانوں کی بڑی اکثریت نے یہ تو نوٹ کیا کہ عدالت نے 1949 میں بابری مسجد کے بڑے گنبد میں مورتی بٹھادینے کی مذمت کی، 1986 میں مقفل بابری مسجد کے دروازے کھول کر ’شیلانیاس‘ کرانے کو ٹھیک نہیں جانا، 1992 میں بابری مسجد کو نامور سیاسی قائدین کی قیادت میں کارسیوکوں کے ہاتھوں منہدم کردینے کو غلط اقدام قرار دیتے ہوئے اس کا مداوا کرنے کی حکومت کو ہدایت دی ہے۔ مگر خدارا، غور کیجئے، اصل مسئلہ یہ نہیں رہا کہ 1949 سے 1992 سے اکثریتی برادری جو کچھ کرتی رہی وہ درست تھا یا نہیں، بلکہ اصل مسئلہ متنازع اراضی کی ملکیت کا تھا۔
کم از کم مسلمانوں کو تو معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا میں کوئی مسئلہ کی یکسوئی میں ”ثبوت“ کی ہی اہمیت ہوتی ہے۔ کیا ہم بھول گئے کہ ام المو¿منین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر جب بہتان باندھا گیا تو شفیق شوہر حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم تک حضرت عائشہؓ کے حق میں ثبوت نہ ہونے کی بناءہفتوں متفکر رہے۔ پھر پیغمبر صلعم ہونے کی بناءاللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی تو معاملہ سلجھا۔ آج ہم سپریم کورٹ بنچ کو انصاف کی دہائی دے رہے ہیں۔
مجھے یقین ہے، چند کے سواءکسی ہندوستانی نے نوٹ نہیں کیا ہوگا کہ ہفتہ کا فیصلہ بنیادی طور پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی رپورٹ کو ملحوظ رکھ کر کیا گیا۔ اے ایس آئی رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ 1528 میں بابری مسجد بالکلیہ خالی جگہ نہیں بنائی گئی تھی، وہاں پہلے سے کچھ ڈھانچہ تھا، کیا تھا اس کے آثار تقریباً 500 سال بعد کھدائی میں چیدہ چیدہ ظاہر ہوئے۔ نیم پختہ ثبوت مندر کے آثار کے ظاہر ہوئے جبکہ یہ معقول حد تک ثابت ہوا کہ بابری مسجد 1528 میں وہاں پہلے سے موجود بنیادوں کو استعمال کرتے ہوئے تعمیر کی گئی تھی۔ اب بحث یہ نہیں کہ وہ آثار کسی غیراسلامی عبادت گاہ کے ہی ہیں یا نہیں، اہم نکتہ یہ ثابت ہوا کہ بابری مسجد بالکلیہ خالی جگہ پر نہیں بنائی گئی تھی۔ مسلم فریقوں کی طرف سے راجیو دھون نے بلاشبہ بڑی سرگرمی سے کیس لڑا، لیکن میرے خیال میں وہ اے ایس آئی رپورٹ پر خاطرخواہ توجہ دینے میں ناکام رہے، اور شاید اندازہ بھی نہیں کرپائے کہ یہی پہلو آخرکار کیس میں فیصلہ کن ثابت ہونے والا ہے۔
سپریم کورٹ فیصلے کے بعد عمومی طور پر مسلمان1949 ، 1986 ، 1992 کے غیرقانونی ، غیردستوری نکات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ بالفرض 1992 کے چیف منسٹر اترپردیش کلیان سنگھ کو سپریم کورٹ اور حکومت کی ہدایت کی خلاف ورزی کی پاداش میں ایک روزہ علامتی سزائے قید کی طرف کارسیوکوں اور دیگر قائدین کو بھی آنے والے وقت میں عدالتیں کچھ سزا سنا دیتی ہیں تو کیا مسلمانوں کے جلتے سینوں میں ٹھنڈک پڑجائے گی؟ مسئلہ حریف کو بہرصورت نیچا دکھانے کا نہیں ہے، ہمارا مطمح نظر اسلام ہونا چاہئے، جس کا مظاہرہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنے ایک غیرمسلم حریف کو پچھاڑ دینے کے بعد کیا تھا اور نتیجتاً وہ آپؓ کے رویہ پر اسلام سے متاثر ہوا اور مسلمان ہوگیا۔
ہم (افسوس کہ میں بھی شامل ہوں) کیا کررہے ہیں؟ 2014 سے نئی مرکزی حکومت کے دور حکمرانی میں بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں لنچنگ کے واقعات، حکومتوں کا سوتیلا سلوک، تین طلاق، کشمیر کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ، اور اب بابری مسجد قضیہ کے عملاً قطعی تصفیہ کے بعد ہماری پاس تمام تر دنیاوی وسائل ہونے کے باوجود ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، واویلا کرنے میں ہم ماہر ہوگئے ہیں۔ نہ اپنی دعوے داری میں ثبوت اکٹھا کرسکتے ہیں، نہ دنیاوی عدالت میں اپنا ثبوت ثابت کرسکتے ہیں۔ بھلا اس سے بڑھ کر مضحکہ خیز بات کیا ہوگی کہ ہم میں سے ’بڑے سے بڑا سیاستداں‘ 2002 کے گجرات فسادات کا ٹھوس ثبوت تو اکٹھا نہیں کرسکا، اور وہ 1528 میں تعمیر شدہ بابری مسجد کے بارے میں دلائل پیش کرنے چلا ہے۔ افسوس۔
میرے چھوٹے بڑے بھائیو، بہنو، بزرگو، دوستو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہوجاو۔ بروقت پانچ نمازیں تو ہم (میں بھی سدھرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے رحم و کرم کی درخواست ہے) سے ہوتی نہیں۔ خیال رہے کہ میں 100 فیصدی مسلمانوں کی بات نہیں کررہا ہوں، مگر بڑی اکثریت کے تعلق سے میری بات سچ ہے۔ منہدمہ اور شاید شہید بابری مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ فیصلے سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔آج انڈیا بھارت ہندوستان میں مسجدوں کی ہرگز کمی نہیں، قلت تو مصلیوں کی ہے۔ ایک بابری مسجد نہیں رہی تو کیا اسی نام سے سینکڑوں، ہزاروں مسجدیں آباد ہوجائیں گی۔ ان شاءاللہ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس قوم کو خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہیں ہوتا، اس کی حالت ہم بھی نہیں بدلتے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی خلاف ورزی پر جنگ احد میں مومنوں کی شکست قریب آگئی تھی۔ وہ تو خدا کی مصلحت رہی کہ اپنے محبوب رسول صلعم اور ان کے مطیع صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی لاج رکھی لی۔ آج کے مسلمان (اکثریت) کا نہ ایمان پکا، نہ نمازوں کی پابندی ہورہی، نہ انفاق (اللہ واسطے بندوں کے حقوق ادا کرنا) کی تکمیل ہوتی ہے، نہ روزہ ریاکاری کے بغیر ہوتا ہے، نہ زکوٰة ڈنڈی مارے بغیر ادا کی جاتی ہے، جج و عمرہ تو سماجی حیثیت کی علامت بن گئے ہیں؛ ہماری جیسی ڈھیٹ قوم تو صرف یہودیوں کی ہوسکتی ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبروں کے احکام و ہدایات کی خلاف ورزیوں کے بعد بھی خود کو خالق کائنات کی چہیتی قوم اور جنت کی حقیقی دعوے دار سمجھتی ہے۔ یاد رکھئے، جنت اتنی سستی نہیں۔
میں حیدرآباد کے ایک نامور اردو اخبار کا نائب مدیر ہوں، فری لانس جرنلزم سے بھی وابستہ ہوں۔ میں بڑے ملی ، سیاسی، مذہبی و دیگر اداروں و تنظیموں سے وابستہ نہیں ہوں۔ اس لئے بابری مسجد پر سپریم کورٹ فیصلے پر ٹھوس قدم اٹھانے کا مکلف بھی نہیں ہوں۔ البتہ مسلمان اور ہندوستانی شہری کی حیثیت سے اظہار خیال کرنا اور اپنی رائے پیش کرنا میرا پیدائشی حق ہے۔ عدالت نے سنی مسلم وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی مناسب جگہ پر علحدہ پانچ ایکر اراضی کا پلاٹ فراہم کرنے حکومت کو ہدایت دی ہے۔
میرے خیال میں سنی مسلم وقف بورڈ کو وہ پانچ ایکر اراضی خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے بالاتفاق رائے اس جگہ پر کوئی مسجد نہیں بلکہ ”عوامی دواخانہ“ قائم کرنا چاہئے، جو اپنی مثال آپ ہو، اس کیلئے ملک بھر سے فنڈ اکٹھا کئے جائیں، حساب کتاب صاف و شفاف ہو، سوپر اسپیشالٹی ہاسپٹل کے قیام کی کوشش کی جائے، جس میں غریبوں اور مستحق افراد کیلئے خصوصیت سے رعایت ہو۔ میری رائے میں ایسا اقدام اسلامی شعائر کی بہترین مثال ہوگا اور ثواب جاریہ کا موجب بنے گا، نیز لوگ اسے رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے۔ آگے ارباب مجاز، دانشوروں، اور قانونی ماہرین کی مرضی۔ مگر یاد رکھئے، جو کوئی بھی کسی کام کے مکلف ہوں، وہ آخرت میں اس کی جوابدہی سے بچ نہیں پائیں گے۔
٭٭٭