صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
بھارت نے نیا قانون شہریت 2019 ملک میں شدید اختلاف رائے کے باوجود منظور کرلیا ہے جسے ابھی لاگو نہیں کیا گیا۔ مودی حکومت جب مناسب سمجھے، اعلامیہ جاری کرتے ہوئے اسے نافذ کرسکتی ہے۔ چنانچہ تادم تحریر قانون شہریت 1955 لاگو ہے۔ دونوں قوانین میں بنیادی فرق صرف ایک ہے کہ 1955 کے قانون میں کسی فرد کی بھارتی شہریت کیلئے اہلیت میں مذہبی وابستگی پر غور کرنا اور اسے کسوٹی بنانا نہیں ہے۔ تاہم، پارلیمنٹ میں شہریت (ترمیمی) بل کی پیشکشی و منظوری اور پھر پارلیمانی منظورہ بل پر صدرجمہوریہ رامناتھ کووند کے بعجلت ممکنہ دستخط سے قبل اور بعد بھی سارے ملک بالخصوص شمال مشرقی ہند میں جاری پرتشدد احتجاج کی دو وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ نئے قانون 2019 میں مسلمانوں سے تعصب برتا گیا ہے اور دوم، شمال مشرقی خطہ والوں کو نئے قانون کے سبب اپنے علاقوں میں آبادیاتی توازن بگڑنے اور اس کے نتیجے میں کئی مسائل پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔
نئے قانون شہریت 2019 کے ذریعے ایسے غیرقانونی تارکین وطن کو انڈین سٹیزن شپ عطا کرنے کی راہ ہموار کی گئی جو افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور عیسائی ہوں، اور جو ہندوستان میں 31 ڈسمبر 2014 کو یا قبل داخل ہوئے ہیں۔ یہ قانون بھارت میں غیرملکی فرد کی مدت قیام کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کی شرط میں نرمی بھی کرتا ہے۔ چنانچہ اب یہ تارکین وطن بھارت میں 11 سال کے بجائے 5 سالہ قیام مکمل کرلیں تو انھیں بھارتی شہریت عطا کردی جائے گی۔ مسلمانوں کو ایسی اہلیت سے نئے قانون میں خارج رکھا ہے۔ تاہم، یہ مضحکہ خیز حقیقت ہے کہ انٹلیجنس بیورو (آئی بی) ریکارڈ کے مطابق نئے قانون شہریت 2019 سے فوری طور پر محض 30,000 سے کچھ زائد افراد کو فائدہ ہونے والا ہے۔ مستقبل میں یہ تعداد بڑھ سکتی ہے لیکن مذکورہ تینوں پڑوسی ملکوں سے ان چھ مذاہب کے ماننے والے سارے لوگ اپنا ملک چھوڑ کر بدحال معیشت، شدید بیروزگاری، ریپ کیلئے سازگار حالات، فرقہ وارانہ بے چینی والے ہندوستان کے شہری بننا پسند کریں، ایسا سمجھنا احمقانہ خوش فہمی ہے۔ یہ صراحت کرنے کی ضرورت نہیں کہ تینوں ملکوں کے غیرمسلموں کو بھارتی شہریت عطا کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مستقبل کیلئے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔
مودی حکومت نے قانون شہریت 1955 میں ترمیم کا بڑی مدت تک ہنگامہ برپا کیا۔ اس ہنگامے سے ملک بالخصوص شمال مشرق میں کتنا پرتشدد ہنگامہ برپا ہوگیا ہے، اس کی وزیراعظم مودی کو فکر ہے نہ وزیر داخلہ امیت شاہ متفکر معلوم ہوتے ہیں۔ بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کا قانون شہریت 1955 میں ترمیم کو نمایاں اہمیت دینا صرف ڈھونگ نظر آتا ہے کیونکہ 30,000 افراد جو پہلے سے ہی ہندوستان میں جی رہے ہیں، ان کیلئے پارلیمنٹ کا قیمتی وقت، کمزور معیشت سے کروڑہا روپئے کا خرچ اور کئی خطوں میں بدامنی اور تشدد کے ذریعے عوام کے جان و مال کا نقصان کرانے کا کیا جواز ہے؟ چنانچہ سپریم کورٹ میں نئے قانون شہریت 2019 کے دستوری جواز کے خلاف عرضیوں کے ادخال کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور اب تک متعدد ہندوستانی سائنس دانوں اور اسکالرس کے بشمول مختلف دیگر شعبہ جات حیات سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے ایک درجن سے زائد عرضیاں داخل کردی ہیں۔ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔ میں مانتا ہوں، مودی حکومت آج جمہوریت کے تمام ستونوں عاملہ، مقننہ ، عدلیہ، صحافت پر حاوی ہوچکی ہے۔ اس لئے حالیہ عرصہ میں نہایت حساس نوعیت کے بعض مقدمات میں سپریم کورٹ نے جس طرح کے فیصلے سنائے، ویسا ہی نئے قانون شہریت 2019 کے معاملے میں بھی اندیشہ ہے۔ لیکن دستور ہند کے آرٹیکلس 14 اور 15 کی کھلی خلاف ورزی پر انصاف پسند شہریوں کا خاموش بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ آرٹیکلس مذہب، نسل، ذات، جنس، مقام پیدائش کی اساس پر تعصب و امتیاز کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔
بی جے پی نے 2014 کے انتخابات کے دوران بنگلہ دیش اور پاکستان کے ہندو پناہ گزینوں کو شہریت عطا کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اسے پارٹی کے انتخابی منشور میں شامل کیا گیا۔ تاہم، مودی حکومت اپنی پہلی میعاد میں یہ کام نہ کرسکی۔ 2019 کی انتخابی مہم میں بی جے پی کے منشور کے حوالے سے دہرایا گیا کہ اس ضمن میں بل لایا جائے گا۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کو ریاست آسام میں ازسرنو مرتب کیا گیا جس کیلئے 52,000 سرکاری ملازمین کی خدمات اور 1,220 کروڑ روپئے جھونک دینے کے بعد اگست 2019 میں جاری کردہ قطعی فہرست سے 19 لاکھ (1.9 ملین) آسامی مکینوں کو خارج رکھا گیا، جن کی اکثریت ہندو ہے اور جو اپنی شہریت ثابت نہیں کرپائے۔ اس معاملہ نے مودی حکومت کو شہریت (ترمیمی) بل 2019 جلد لانے پر مجبور کیا۔
شہریت کے موضوع سے جڑا ایک متنازع مسئلہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) آف انڈیا کا ہے۔ یہ ایسا رجسٹر ہے جو حکومت ہند تازہ رکھتی ہے جس میں ریاست آسام کے ہندوستانی شہریوں کی شناخت کیلئے ان کے نام اور بعض متعلقہ معلومات درج ہوتے ہیں۔ یہ رجسٹر ابتدائی طور پر خصوصیت سے آسام اسٹیٹ کیلئے بنایا گیا۔ تاہم 20 نومبر 2019 کو وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمانی سیشن کے دوران اعلان کیا کہ اس رجسٹر کو سارے ملک میں وسعت دی جائے گی۔ یہ رجسٹر پہلی بار 1951 کی مردم شماری ہند کے بعد تیار کیا گیا تھا اور تب سے اسے حالیہ عرصے تک نئی معلومات کے ساتھ ترتیب نہیں دیا گیا تھا۔ صرف آسام این آر سی کیلئے مودی حکومت نے 1,220 کروڑ روپئے خرچ کردیئے اور اب وہ 28 ریاستوں و نصف درجن سے زائد مرکزی علاقوں پر محیط ہندوستان میں اس پر عمل کرنے کی بات کررہے ہیں جو ہندوستان کی مجموعی حالت کو دیکھتے ہوئے ”بے وقت کی راگنی“ ہے۔ ملک کے سلگتے مسائل کیا ہے؟ ہماری شرح ترقی 5 فیصد کے آس پاس بھٹک رہی ہے، ہم پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال سے تک پچھڑ چکے ہیں۔ مگر مودی حکومت کا حال ”صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں“ جیسا ہے۔ ہر باشعور ہندوستانی کو سمجھ آرہا ہے کہ مودی حکومت آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کا دیرینہ خواب پورا کرنے کوشاں ہے کہ 1925 تک کسی طرح بھارت ”ہندو ملک“ بن جائے۔ شہریت (ترمیمی) بل کے ذریعے گھوم پھر کر آنے کے بجائے وہ سیدھے دستور سے سکیولر ملک کے الفاظ نکالنے اور اسے ”ہندو راشٹرا“ بنانے کا بل لے آتے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان میں نمبر تو ان کے پاس ہیں۔ صدرجمہوریہ بھی دستخط کرنے ہمیشہ چست رہتے ہیں۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کو اور کیا چاہئے؟ مگر وہ لقمہ سیدھا منہ میں ڈالنے کے بجائے اسے سر سے گھماتے ہوئے حلق میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے، ایسا ہی سہی۔ آنے والا وقت طے کرے گا کہ انھیں لقمہ حاصل ہوگا کہ نہیں۔
دنیا میں آج ہر فرد کو کسی نہ کسی ملک کی شہریت کی حاجت ہے، ورنہ کسی بھی وجہ سے بے مملکت ہوجانے والے افراد پناہ گزینوں کی حیثیت سے در بہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ کبھی اِس ملک میں تو کبھی اس ملک میں پناہ لیتے ہیں۔ کوئی ملک انھیں عارضی طور پر قبول کرتا ہے تو کوئی ان کو ایک عرصہ بعد شہریت عطا کردیتا ہے۔ بہرحال یہ ساری دوڑ دھوپ بڑی پریشان کن ہوتی ہے، تمام متعلقین کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔ انھیں اپنے آبائی وطن سے ہٹ کر کوئی اور ملک میں مستقل پناہ مل بھی جائے تو وہاں کا معاشرہ انھیں کبھی پوری طرح قبول نہیں کرتا، انھیں طنز و طعن کا سامنا رہتا ہے۔ اس پس منظر میں کوئی بھی فرد کی خواہش رہتی ہے کہ اپنے آبائی وطن کی شہریت برقرار رہے اور اسے اپنے ملک کا شہری ہونے کے تمام دستیاب فوائد حاصل ہوں۔
بھارت میں قانون شہریت 1955 (سٹیزن شپ ایکٹ، 1955) کے تحت کسی فرد کو شہریت حاصل ہونے کے لگ بھگ وہی قواعد و شرائط ہیں جو ہمیں دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں مل جائیں گے، جیسے ملک کے جغرافیائی حدود میں پیدائش پر شہریت حاصل ہونا، جس میں بعض شرائط کا اطلاق ہوگا، مثلاً جو کوئی 26 جنوری 1950 کو یا بعد مگر یکم جولائی 1987 سے قبل بھارت میں پیدا ہو، اسے ہندوستانی شہریت ملے گی۔ اسی طرح جو فرد یکم جولائی 1987 کو یا بعد مگر شہریت (ترمیمی) قانون 2003 کی شروعات سے قبل پیدا ہو ، اور جس کی پیدائش کے وقت والدین میں سے کوئی ایک انڈیا کے شہری ہوں، وہ فرد کو بھی انڈین سٹیزن شپ حاصل رہے گی۔ شہریت (ترمیمی) قانون 2003 کی شروعات پر یا بعد میں پیدا ہونے والے فرد کو بھارتی شہریت ملے گی، بشرط یہ کہ پیدائش کے وقت اس کے والدین بھارت کے شہری ہوں، یا پھر ان میں سے ایک تو ہندوستانی شہری ہو اور دیگر غیرقانونی تارک وطن (ایمگرنٹ) نہ ہو، اسے پیدائش پر انڈیا کے سٹیزن کا موقف حاصل ہوجائے گا۔ اسی طرح قانون شہریت 1955 کے تحت شہریت حاصل ہوجانے یا عطا کئے جانے کی اور بھی شقیں ہیں ، جیسے رجسٹریشن کے ذریعے سٹیزن شپ کا حصول؛ شہریت کیلئے غیرملکی کی جانب سے درخواست پیش کرنا؛ یا مخصوص مدت قیام کو ملحوظ رکھ کر اس سے قطع نظر متعلقہ حکومت کا شہریت عطا کردینا، وغیرہ۔
***