جموں و کشمیر کے اڈمنسٹریشن نے جمعہ کو غیرمتوقع فیصلے میں فاروق عبداللہ کے خلاف لاگو سخت پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو فوری اثر کے ساتھ برخاست کرتے ہوئے موجودہ رکن لوک سبھا (حلقہ سرینگر) کو آزاد کردیا۔ وہ پانچ مرتبہ کے پارلیمنٹیرین ہیں اور تین بار چیف منسٹر جموں و کشمیر (غیرمنقسم) بھی رہے۔ 82 سالہ عبداللہ جمعہ کو رہائی کے بعد اپنی فیملی کے ہمراہ سرینگر کی ڈل جھیل کے کنارے واقع درگاہ حضرت بل کے احاطے میں اپنے والد شیخ عبداللہ کی مزار پہنچے اور اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے ہاتھ اٹھا کر شاید اپنی رہائی کیلئے اظہار تشکر کیا اور اپنے فرزند و سابق چیف منسٹر عمر عبداللہ کے بشمول دیگر نظربند قائدین کی بھی رہائی کیلئے دعا مانگی۔
5 اگست 2019 کو مودی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ عطا کرنے والے دستوری آرٹیکل 370 کو ختم کرتے ہوئے اس سرحدی ریاست کو دو مرکزی علاقوں ’جموں و کشمیر‘ اور ’لداخ‘ میں تقسیم کیا، نیز بہ یک وقت کشمیر میں اصل دھارے کی پوری سیاسی قیادت کو نظربند کردیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ .... تمام سابق وزرائے اعلیٰ متحدہ جموں و کشمیر کو پی ایس اے ایکٹ کے تحت بڑی مدت کیلئے آزادی سے دور کردیا تھا۔ اس پورے عرصے میں دوسری، تیسری صف کے چند لیڈروں کو نظربندی سے رہا کیا گیا۔ تاہم، فاروق عبداللہ کی رہائی بہت نمایاں تبدیلی ہے۔ پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن درمیانی وقفے کے بعد جاری ہے اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق جمعہ 3 اپریل تک چلے گا۔ عین ممکن ہے دوشنبہ 16 مارچ کو فاروق عبداللہ کی لوک سبھا کارروائی میں شرکت ہوگی۔
دہلی اسمبلی الیکشن میں کانگریس کی درپردہ مدد کے ساتھ اروند کجریوال کی عام آدمی پارٹی کے مقابل بھارتیہ جنتا پارٹی کی کراری شکست کو بمشکل ایک ماہ ہوا ہے۔ اس مدت میں بڑی تیزی سے مثبت، منفی، پھر بظاہر مثبت تبدیلیاں مودی۔ شاہ حکومت کی طرف سے دیکھنے میں آرہی ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ بی جے پی کی انتخابی شکست کے بعد شمال مشرقی دہلی میں ”منصوبہ بند“ تشدد کے درمیان احمدآباد، گجرات پہنچے، وہاں سے آگرہ جاکر تاج محل کا دیدار کیا، پھر دہلی آئے جہاں وزیراعظم مودی کے ساتھ بات چیت کے بعد ”چند معاہدے“ ہوئے۔ اس طرح اپنا 36 گھنٹے کا دورہ ہند دہلی میں تشدد کے درمیان مکمل کیا اور اپنے وطن واپس ہوگئے۔ اس طرح مرکز نے ’سوپر پاور‘ لیڈر کی مہمان نوازی دارالحکومت کے قابل لحاظ حصے میں مخصوص طبقہ کو نشانہ بناتے ہوئے شاید دنیا کو کچھ پیام دینا چاہا ہے؟
فبروری کے آخری دہے میں شمال مشرقی دہلی میں ظلم و ستم، قتل، غارت گری، بربریت کی داستان چھوڑی گئی۔ مارچ آیا تو ”یس بینک“ گیا۔ تاہم، حکومت کے پٹارے میں عوام کو مصروف رکھنے کیلئے ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ چنانچہ مرکزی ملازمین کے گرانی الاونس (ڈی اے) میں 4% کا اضافہ کردیا گیا۔ مجھے گرانی بھتہ پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ البتہ، میں اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ جہاں حکومت ڈی اے میں چار فیصد اضافہ کرسکتی ہے تو اس میں کچھ کمی بیشی کے ذریعے چند بے روزگاروں کو تو روزگار دیا جاسکتا ہے، جس میں آبادی کے تناسب سے خیال رکھا جائے تو حکومت کا کچھ تو مستحسن اقدام ہوگا۔ یس بینک ڈوبا تو بینکوں پر عوام کا پہلے سے متزلزل اعتماد لرز گیا۔ جانے کس نے اچھا مشورہ دیا جسے حکومت نے قبول بھی کیا اور تقریباً 70 فیصدی سرکاری ایس بی آئی نے فوری کسٹمرس کے حق میں چند اچھے اقدامات کا اعلان کردیا، جیسے اقل ترین بیالنس پر جرمانہ کی برخاستگی۔ پھر بظاہر سخت گیر وزیر داخلہ راجیہ سبھا میں نرم پڑگئے اور مسلمانوں کے بشمول قوم کو یقین دلایا کہ یکم اپریل سے این پی آر کا عمل کسی کیلئے بھی نقصان دہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ کوئی دستاویز پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ حتیٰ کہ کسی بھی فرد کے فارم پر ’مشکوک‘ یا ’ڈی‘ نہیں لکھا جائے گا۔ (ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے)
٭٭٭