بھارتیہ جنتا پارٹی کو اُن کے مفادات کے خلاف راست یا بالواسطہ ہر تبدیلی پر اعتراض ہوتا ہے۔ فلم ایکٹریس دپیکا پڈوکون گزشتہ دنوں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) پہنچ گئیں اور نقاب پوش غنڈوں کا حملہ برداشت کرنے والے اسٹوڈنٹس سے اظہار یگانگت کرتے ہوئے ان کو دلاسہ دلایا۔ بالخصوص جے این یو اسٹوڈنٹس کی صدر آشی گھوش کو شدید زخمی ہوئی اور ان کے سر پر بارہ ٹانکے لگانے پڑے۔ آشی اور ان کی یونین و دیگر اسٹوڈنٹس بائیں بازو کی طرف فطری میلان رکھتے ہیں جبکہ یونیورسٹی میں ان کی حریف بی جے پی کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) ہے۔
اے بی وی پی اور دیگر کا دعویٰ ہے کہ خود لیفٹ والوں نے نقاب پوش غنڈوں کی شکل میں آشی گھوش اور دیگر اسٹوڈنٹس پر حملہ کیا ہے۔ کتنا مضحکہ خیز دعویٰ ہے۔ جے این یو کیمپس میں پورے حملے کے دوران خود جے این یو سکیورٹی اور پولیس والے خاموش تماشائی رہے۔ یہ بجائے خود قابل گرفت عمل ہے۔ اس کے بعد واقعہ کی جامع تحقیقات کے بجائے اوٹ پٹانگ دعوے کئے جارہے ہیں اور حکام خاموش ہیں۔ چنانچہ آشی گھوش اور ان کی یونین نے وائس چانسلر جگدیش کمار کی برطرفی کا واجبی مطالبہ کیا ہے۔
اس درمیان مرکزی وزیر سمرتی ایرانی جن کو ملک میں بی جے پی کے سوا سب میں خامی نظر آتی ہے اور خاص طور پر لوک سبھا امیٹھی میں راہول گاندھی کو شکست دینے کے بعد وہ ساتویں آسمان پر ہیں۔ انھوں نے دپیکا پڈوکون کے دورہ جے این یو پر تنقید کردی، حالانکہ حملے میں آشی گھوش و دیگر کئی لڑکیاں ، خاتون پروفیسرز زخمی ہوئے، جن کے تعلق سے پوچھ تاچھ کرنے کیلئے خاتون مرکزی وزیر کی حیثیت سے سمرتی کو وہاں جانا چاہئے تھا۔ یہ تو ممکن نہ ہوا مگر دپیکا کا دورہ جے این یو انھیں پسند نہیں آیا۔ جے این یو حملے میں معاملہ لیفٹ اور اے بی وی پی یعنی بی جے پی کے درمیان ہے لیکن سمرتی نے کہا کہ دپیکا کانگریس کے حق میں جے این یو آئیں، بلکہ وہ کانگریس کی طرف اپنا فطری میلان 2011 میں ہی ظاہر کرچکی تھیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مودی حکومت کے وزراءکتنے غیرحساس ہیں بلکہ خود وزیراعظم اور ’حکومت میں نمبر دو‘ وزیر داخلہ خود غیرحساسیت کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں تو اب ان کے وزراءسے کے تعلق سے کیا شکایت کی جاسکتی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں گھس کر پولیس کارروائی ہو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تشدد ہو یا جے این یو میں نقاب پوش غنڈوں کا حملہ، مودی حکومت کی طرف سے کسی نے بھی لب کشائی نہیں کی ہے اور حالانکہ دہلی میں لا اینڈ آرڈر کا معاملہ خود مرکزی حکومت کے تحت ہے۔ اور کوئی وزیر لب کشائی کرے تو سمرتی ایرانی کی اوٹ پٹانگ باتیں ہوتی ہیں۔ افسوس۔
٭٭٭