ہر مذہب میں اخلاقیات کو اہمیت دی گئی ہے۔ اخلاق عربی لفظ ہے جس کا مفہوم پسندیدہ عادتیں، اچھی خصلتیں، اچھا برتاو، ملنساری، خاطر مدارات، آو بھگت ہے۔ فلسفہ کے اعتبار سے دیکھیں تو ایسا علم جس میں تہذیب نفس اور سیاست مدن پر بحث کی جاتی ہے۔ اس طرح اخلاقیات بہ الفاظ دیگر علم الاخلاق ہے۔ یعنی تعلیم و تربیت کا وہ شعبہ جس کے ذریعے اخلاق کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس تمہید کے بعد بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کیلئے اخلاقیات کس قدر اہم ہوتے ہیں۔ یہی ہے جس کی وجہ سے انسان مہذب سماج کا حصہ کہلاتا ہے۔
تقریباً 50 سال قبل تک سرکاری نصاب میں اخلاقیات کا مضمون شامل ہوا کرتا تھا مگر تعلیم کے اہم حصہ کو غیرضروری سمجھ کر نصاب سے ہٹا دیا گیا۔ کئی خانگی اسکولوں بالخصوص اردو ذریعہ تعلیم کے مدرسوں میں آج بھی اخلاقیات نصاب کا حصہ ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہو کہ مدارس کے طلبہ بھلے ہی دنیوی تعلیم میں کچھ پیچھے ہوں، لیکن وہ محض ماڈرن ایجوکیشن حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹس کے مقابل اخلاقیات میں بہت بہتر ہوتے ہیں۔ یہی تو خاصیت ہے جو اسٹوڈنٹس کو آگے کی زندگی میں کام میں آتی ہے۔
آج اخلاقیات سے عاری تعلیم بڑی وجہ ہے کہ سوسائٹی میں کرائم بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کمسنی سے لے کر نوجوانی تک اسٹوڈنٹس چھوٹے بڑوں کے حد و ادب، لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ضروری فاصلہ برقرار رکھنے کی ضرورت، گھر سے باہر عادات و اطوار میں اچھے برتاو سے نابلد ہیں۔ ان کو اس کی اہمیت اور ضرورت کا کچھ اندازہ نہیں۔ اس کے نتیجے میں آج معاشرے میں کسی مذہب سے قطع نظر عمومی طور پر ماں باپ کی اولاد کے پاس قدر نہیں، وہ اپنی گھر کی سماجی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان کو پورا کرنے تیار نہیں ہیں۔
ایسی اولاد جب شادی شدہ اور خود اولاد کے ماں باپ بن جاتے ہیں تو ان کو خود اپنے والدین بوجھ لگنے لگتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج شہروں میں اولڈ ایج ہوم کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ تاہم، وہ اولاد یہ نہ سمجھے نہ جو کچھ انھوں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ کیا ہے، وہی کچھ ان کی اولاد بھی کرے گی۔ اس طرح ہمارا سماج کدھر جارہا ہے؟ اس لئے پانی سر سے اونچا ہوجانے سے قبل حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ اخلاقیات یا ’مورل ایجوکیشن‘ کو اسکولی تعلیم کا لازمی حصہ بنائیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ حالیہ عرصے میں صدرجمہوریہ، نائب صدر اور بعض چیف منسٹروں نے بھی اخلاقیات اور تعلیمی نصاب میں اس کی شمولیت پر زور دیا ہے۔
٭٭٭