حیدرآباد (دکن) میں مچھروں کو مارنے روایتی طور پر بلدیہ ملازمین شہر میں گھوم گھوم کر خاص قسم کا دھواں چھوڑتے ہیں، جس سے بلاشبہ مختلف پریشان کن امراض جیسے ڈینگی، ملیریا، ٹائفائیڈ و دیگر کا سبب بننے والے معمولی مگر خطرناک کیڑے کے خلاف ہمیں قابل لحاظ کامیابی ملتی رہی ہے۔ یہ دھویں کا طریقہ کئی دہوں سے جاری ہے۔ تیزی سے بدلتی ماڈرن ٹکنالوجی کے دور میں ’ٹی ہب‘ کے چند ذہین افراد نے بہترین کوشش کرتے ہوئے ایسا ڈرون (ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلایا جانے والا طیارہ یا پھر چھوٹا آلہ جو زیر نظر تحریر کے معاملے میں ہے) تیار کیا ہے جو مچھروں کی افزائش کے بڑے مقامات بالخصوص جھیلوں کے پاس لگا کر ان کو افزائش کے ابتدائی مرحلے میں ہی ختم کرنے میں موثر ثابت ہوا ہے۔ ’ٹی ہب‘ بھارت کا اسٹارٹپس کے لیے سب سے بڑا مادر ادارہ ہے جس کا ہیڈکوارٹر حیدرآباد میں واقع ہے۔


مچھر کی ابتدائی شکل ’لاروا‘ ہوتی ہے، اگر جھیلوں میں اسے ہی ختم کردیا جائے تو لاروے کو ختم کرنے اور مچھروں کی تعداد میں کمی کا دوہرا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ ٹی ہب کے ڈرون کا تجربہ میاں پور (حیدرآباد) میں واقع گرونادھم جھیل میں پہلا تجربہ مارچ کے آخری ہفتے میں کیا گیا، جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ ڈرون کے تجربے کے بعد مچھر کے لاروے کی کثافت 41 فی لیڈل (تقریباً چالیس ملی لیٹر) پانی سے گھٹ کر 28 ہوگئی، جب کہ مچھروں کی تعداد محض دو روز میں 26 سے 16 تک گھٹ گئی۔ چنانچہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی) قدیم موسیٰ ندی کے علاوہ شہر کی بقیہ جھیلوں اور نالوں میں ’اینٹی لارول کیمیکلس‘ کے چھڑکاو کے لیے ڈرونس لگانے کی تیاری کررہا ہے۔ میئر بی رام موہن نے گزشتہ ہفتے گرونادھم لیک میں چھڑکاو کے دوسرے راونڈ کے ساتھ بلدیہ کے پروگرام کا رسمی افتتاح بھی کردیا ہے۔


ڈرون ٹکنیک کو متعارف کرنے کا ابتدائی مقصد لیبر کے ذریعے چھڑکاو کے مشقت طلب کام میں صرف ہونے والے گھنٹوں میں گھٹانے کا رہا۔ پہلے 16 ایکڑ پر پھیلی ہوئی جھیل کا چھڑکاو کے ذریعے احاطہ کرنے میں 10 ورکرز کو تقریباً 15 دن لگتے تھے۔ علاوہ ازیں، انسان کے لیے بعض علاقے چھڑکاو کا عمل انجام دینے ناقابل رسائی بھی ہوتے ہیں۔ جب مچھروں کے خلاف ڈرون ٹکنالوجی کو سارے شہر میں استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا تو ٹی ہب والوں کو اس میں چند تبدیلیاں لانے کے لیے کہا گیا، بالخصوص چھڑکاو کے کیمیائی مادے کو سمانے کی گنجائش۔ ابتداءمیں ڈرون تقریباً آٹھ تا نو لیٹر کیمیکل کے قابل تھا، جسے اب 16 تا 17 لیٹر کیمیکل فی ٹرپ تک بڑھایا گیا ہے۔ فی الحال تجربہ والا واحد ڈرون دستیاب ہے۔ ٹی ہب والوں نے کہا ہے کہ سرکاری حکام کی طرف سے آرڈر پر مزید ڈرون تیار کئے جائیں گے۔


یہ شہریان حیدرآباد کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے، بالخصوص ملک پیٹ قدیم، ٹولی چوکی، اور نالوں و جھیلوں کے آس پاس والے رہائشی علاقوں کے مکینوں کو بڑی راحت ملنے والی ہے۔ مچھر صرف کاٹتے مگر نہایت پریشان کن بیماریوں کے موجب نہ ہوتے تو اس معمولی کیڑے کے خلاف شہریوں اور حکومتوں کو متعدد جتن نہیں کرنے پڑے۔ تاہم، اگر شہریوں کو صحت کے ایک بڑے مسئلے سے محفوظ رکھنا ہو تو مچھروں اور ان کے لاروے کو مارنا ہوگا۔ دیکھنا ہے جی ایچ ایم سی حکام جدید ٹکنالوجی کا مچھروں کے معاملے کس طرح کامیابی سے استعمال کرتی ہے۔

Find out more: