دارالحکومت تلنگانہ حیدرآباد اِن دنوں وبائی امراض کی لپیٹ میں ہے۔ خاص طور پر ڈینگو (صحیح تلفظ : ڈینگے یا ڈینگی) فیور نے شہریوں کو کافی پریشان کررکھا ہے۔ یہ بخار مچھروں کے وائرس سے پھیلنے والا موذی مرض ہے، جسے ہڈی توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مریض خون میں پائے جانے والے مفید دَموی لوجین سے تیزی سے محروم ہوتا جاتا ہے جو زندگی کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈینگو لاحق ہوجانے کی علامتیں تین تا چودہ دنوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اس میں تیز بخار، سر درد، قے، رگ پٹھوں اور جوڑوں کا درد، اور جلد پر مخصوص قسم کی خراش شامل ہیں۔ اس کے انسداد کے لیے ڈینگو فیور ویکسین مستعمل ہے۔ عوام میں دموی لوجین کی گراوٹ روکنے کے لیے بعض گھریلو نسخے بھی مشہور ہیں جیسے پپائی کا شربت پینا۔


ایسے وبائی امراض کے ماحول میں پرانا شہر کے لوگ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد (جی ایچ ایم سی) اور حکومتی نظم ونسق سے نالاں ہیں۔ مچھروں کی افزائش کو روکنے کے لیے سب سے پہلے صاف صفائی پر خاص توجہ دینا ضروری ہے، کچرے کی نکاسی بھی روزانہ بروقت ہونا چاہئے۔ پرانے شہر کے لوگوں کو شکایت ہے کہ بلدیہ کی طرف سے ساوتھ زون (پرانا شہر) میں صاف صفائی کا انتظام غیراطمینان بخش ہے، کچرے کی نکاسی بھی باقاعدگی سے نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح کی صورتحال پیدا کرنا گویا شہریوں کی صحت سے کھلواڑ ہے اور جہاں تک وبائی امراض کا معاملہ ہے، یہ کسی علاقے تک محدود نہیں رہتے، پھیلتے جاتے ہیں۔ اس لئے حکومت کے لیے لاپرواہی بڑی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ گزشتہ ماہ دس یوم میں 45 ڈینگو کیسیس نے شہریوں میں خوف پیدا کیا۔


میری رائے میں صرف حکومت یا حکومتی اداروں سے شکوے اور شکایتوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ شہریوں کو بھی اپنے آس پاس کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے۔ بڑوں کا کام ہے کہ وہ نہ صرف خود اس کام میں حصہ لیں بلکہ بچوں کو بھی ترغیب دیا کریں۔ اس طرح ہر محلہ میں صاف ستھرا ماحول بنانے میں بڑی حد تک مدد ملے گی۔ اس کے بعد منتخبہ عوامی نمائندوں بالخصوص جی ایچ ایم ایس کارپوریٹرز پر فرض ہے کہ وہ بلدی امور کی کماحقہ تکمیل کو یقینی بنائیں اور غیرذمہ دارانہ خاموشی سے گریز کریں۔ انھیں اپنے حلقہ کے تمام تر بلدی مسائل کو مناسب پلیٹ فارم پر ضرور اٹھانا اور برتر عوامی نمائندوں سے مدد لینا چاہئے۔ عوام کا کام ہے کہ اپنے منتخبہ نمائندوں کی کارکردگی پر گہری نظر رکھیں، ورنہ اپنے نقصان کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔


Find out more: