مہلک وبائی مرض کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے آج اتوار 22 مارچ کو سارے ہندوستان میں ’جنتا کرفیو‘ منایا جارہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے جمعرات کو اس ضمن میں اپیل کرتے ہوئے عوام سے تعاون طلب کیا۔ اگلے روز انھوں نے تمام ریاستوں سے بھی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بھرپور تعاون کیلئے کہا تاکہ وبائی مرض کو مزید پھیلنے سے روکا جاسکے۔ تادم تحریر بھارت میں 283 متاثرین ہوچکے تھے۔ یہ جنتا کرفیو ’لاک ڈاون‘ کی شکل ہے جو پہلے ہی دنیا کے مختلف حصوں میں لاگو کیا جاچکا ہے۔
کورونا وائرس کے تعلق سے فی الحال یہی مسلمہ اطلاع ہے کہ یہ ہوا کے ذریعے نہیں بلکہ انسان سے انسان کو منتقل ہورہا ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ملکوں کو اپنی سرحدوں پر نگرانی بڑھانی پڑے گی اور ممکنہ طور پر بیرون ملک سے لوگوں کی آمد کو روکنا پڑے گا چاہے آنے والے اپنے شہری کیوں نہ ہوں۔ اس سلسلہ میں انٹرنیشنل فلائٹس کو روکنا ضروری ہے۔ چنانچہ حکومت ہند نے اتوار 22 مارچ سے فی الحال ایک ہفتے کیلئے بین الاقوامی پروازیں بند کردی ہیں۔ یہ اقدام چند ہفتے قبل کیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ خیر دیر آئے درست آئے۔
اب سے سارے ملک کو زیادہ سے زیادہ احتیاط، صاف صفائی کا خیال رکھنا پڑے گا۔ یوں تو سبھی دیکھ رہے ہوں گے ماسک اور سنیٹائزر کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ جب بھی کسی شئے کی مانگ بڑھتی ہے، کالابازاری اور دام بڑھانے کی غلط روش جنم لیتی ہے۔ حکومتی حکام کو اس معاملے میں بھی کڑی نگرانی کرنی ہوگی کیونکہ اس میں سب سے زیادہ نقصان غریبوں کا ہوتا ہے۔ امیر شخص 10 روپئے کی شئے 100 روپئے میں بھی فروخت کریں تو خرید سکتا ہے لیکن غریبوں کیلئے یہ ممکن نہیں رہتا۔ اور یہاں معاملہ صحت عامہ کا ہے۔ وبائی مرض امیر اور غریب کا نہیں دیکھتا۔ غریب کیلئے علاج اور احتیاطی اقدامات مشکل بنا دیئے جائیں تو وہ متاثر ہوں گے اور اس کا اثر سماج کے دیگر افراد بشمول امیروں پر پڑسکتا ہے۔
وزیراعظم مودی نے مرکز کی طرف سے اتوار کو صبح 7 بجے سے رات 9 بجے تک جنتا کرفیو کا اعلان کیا ہے۔ حکومت تلنگانہ نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اتوار کو صبح 6 بجے سے پیر کی صبح 6 بجے تک 24 گھنٹے کیلئے جنتا کرفیو کا اعلان کیا ہے۔ میرے لئے جنتا کرفیو کا پہلا تجربہ ہے۔ دیکھنا ہے عوام اور سماج اس کو کس حد تک کامیاب بناتا ہے اور کورونا وائرس کی روک تھام کے اصل مقصد میں قوم کو کتنی کامیابی ملتی ہے؟ بہرحال 14 گھنٹے ہو کہ 24 گھنٹے اس طرح عوام کی نقل و حرکت پر تحدید زیادہ عرصہ برقرار نہیں رکھی جاسکتی۔ اس لئے میرے خیال میں انٹرنیشنل فلائٹس کو ممکنہ حد تک زیادہ مدت کیلئے بند رکھنا اور جب بھی بحالی ہو، بیرون ملک سے آنے والے ہر فرد کی سخت طبی جانچ وہیں ایرپورٹ پر کرنا ہی بہتر ہے۔ اسی طرح زمینی سرحدوں پر بھی سخت نگرانی کے انتظامات کئے جائیں۔
٭٭٭