اِس دنیائے فانی میں انسان کوئی بھی مذہب سے تعلق رکھے، یا وہ کسی مذہب پر یقین ہی نہ رکھے، لیکن وہ دنیوی ترقی ضرور چاہتا ہے۔ کوئی بھی ماں باپ جو کچھ بھی سماجی حیثیت رکھتے ہوں، وہ آرزومند ہوتے ہیں کہ اولاد ان سے زیادہ ترقی کرے۔ یہ سب فطری باتیں ہیں جو آپ کو کرہ ارض کے ہر گوشے میں دیکھنے کو ملیں گی۔ البتہ والدین کی آرزو اور بچوں کا لڑکپن سے گزرتے ہوئے کوئی پیشہ اختیار کرنے تک دنیا کے لگ بھگ ہر براعظم اور ہر خطے میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔
میں نے کئی برس قبل جب کہ میں صاحب ِ اولاد بھی نہ تھا، کہیں پڑھا تھا کہ ایشیا بالخصوص برصغیر ہند اور دیگر ترقی یافتہ اقوام جیسے امریکا، جرمنی میں بچوں کے ساتھ ماں باپ کا فیوچر کے تعلق سے رویہ برعکس ہے۔ یہاں ہماری اکثریت اولاد ہونے سے پہلے ہی طے کرلیتی ہے کہ بیٹے کو فلاں پیشہ تک پہنچائیں گے، اور بیٹی کو فلاں۔ ہم یہ بات نظرانداز کردیتے ہیں کہ ہر انسان کی مختلف صلاحیت ہوتی ہے، وہ آزادی سے اپنی صلاحیت کے مطابق بڑھتا جائے تو نہ صرف فیملی، سوسائٹی، ریاست بلکہ ملک کے لیے بھی قیمتی اثاثہ بن سکتا ہے بن سکتی ہے۔ فیوچر طے کرنے میں آزادی دینے کا میرا یہ مطلب نہیں کہ انھیں من مانی کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ بے شک، نظر رکھئے؛ کم سنی سے، بچپن سے، لڑکپن سے، جوانی تک ضرور نگرانی کریں، یہ تو والدین و سرپرستوں کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہے۔ بہرحال بچوں کے کریئر کے معاملے میں ماں باپ اپنی خواہشیں (واجبی سہی) اولاد پر مسلط نہ کریں، اور انھیں اپنی مثبت صلاحیتوں کا کھل کر مظاہرہ کرنے دیں۔ یقین کیجئے، سماج کو معمول سے کہیں زیادہ کامیاب فرد حاصل ہوگا۔
مغربی ملکوں میں ٹھیک یہی کرتے ہیں کہ بچوں کی فطری صلاحیتوں کا پتہ چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اور جب معلوم ہوجائے کہ فلاں پیشہ چاہے وہ وائٹ کالر جاب والا ہو، بزنس سے متعلق ہو، کھیلوں سے تعلق رکھتا ہو، وغیرہ .... اسے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں بلکہ بچہ کی نمایاں کارکردگی و کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں تو وہاں ماں باپ ہرگز اولاد کی پسند میں مزاحم نہیں ہوتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ زندگی کے لگ بھگ ہر شعبہ میں وہاں سے دنیا کو اکسپرٹس حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف ہمارے پاس سے زیادہ تر ’غیرمطمئن‘ نوجوانوں کی کھیپ نکلتی ہے۔
میں نے عنوان میں ’کھیل کود‘ کا ذکر اس لئے کیا کہ بچے اور کھیل کود لازم و ملزوم ہیں، یعنی ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ کم سنی، بچپن اور لڑکپن میں بچوں کی کھیل کود میں سرگرمیوں سے ان کی فطری صلاحیتوں کا بڑی حد تک پتہ چل جاتا ہے۔ اس کے بعد والدین و سرپرستوں کو انھیں پروان چڑھانے اور فیوچر کے لیے تیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس لئے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ بچے کوئی غلط کام کی طرف جانے لگیں، تب ہی انھیں ڈانٹیں، مناسب سزا دیں، حکمت سے صحیح ڈگر پر لے آئیں .... ورنہ اپنی آرزو کی تکمیل کے لیے ان پر بیجا دباو نہ ڈالئے۔ اگر آپ کی تربیت اچھی ہوگی تو ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اولاد کے دل میں آپ کی آرزو کا احترام پیدا ہو، اور وہ اسے اپنی پسند پر مقدم رکھتے ہوئے ایسی کارگزاری پیش کریں، جس سے انھیں فائدہ ہو، اور آپ کی دلی آرزو بھی پوری ہوجائے۔