صحافت یا جرنلزم کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ جب تک صحافت ، اخبارنویسی تک محدود تھی، اس کا معیار ہوا کرتا تھا، اس کا سماج اور قوم کے تئیں تعمیری مقصد ہوا کرتا تھا۔ تب صحافت آسان کام تھا اور نہ ہی اس سے ناقابل لوگ وابستہ ہوا کرتے تھے۔ اتفاق سے کوئی معاشی قسمت سے بدحال فرد اخبارنویسی کی طرف آبھی جائے تو وہ زیادہ عرصہ تک ٹک نہیں پاتا تھا۔ اس کے بعد جب پُرکشش الیکٹرانک جرنلزم دنیائے ذرائع ابلاغ میں متعارف ہوا تو بتدریج صلاحیتوں کی جگہ خوبرو ہونا یا خوبصورت ہونا الیکٹرانک میڈیا سے وابستگی کی کسوٹی بنتی گئی۔ چنانچہ معیار پر مفاہمت کی جانے لگی۔ اور پھر جب انٹرنٹ اور سوشل میڈیا.... واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ متعارف ہوئے تو یوں سمجھئے کہ میڈیا میں انقلاب آگیا!

میں یہاں خاص طور پر سوشل میڈیا کی اچھائی اور برائیوں کو پیش کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ اسمارٹ فونس اور واٹس ایپ معمولی عرصے کے فرق سے مقبول عام ہوئے۔ اس سے قبل فیس بک، ٹوئٹر وغیرہ زیادہ تر انٹرنٹ اور پرسنل کمپیوٹر (پی سی) کے ذریعے استعمال ہوا کرتے تھے۔ واٹس ایپ نے سوشل میڈیا کی شبیہہ بدل ڈالی۔ دنیا بھر میں جس بندہ کے پاس اسمارٹ فون ہو، وہ ایک سے زائد واٹس ایپ اکاونٹس بنا سکتا بناسکتی ہے۔ اعتراض اس بات پر نہیں کہ ہر فرد کے لیے واٹس ایپ کا استعمال ’بنیادی حق‘ ہوگیا، بلکہ تشویش اس بات پر ہے کہ خواندہ اور اَن پڑھ کی تخصیص ختم ہوگئی۔ کوئی بھی عصری ٹکنالوجی کو تعمیری مقصد کے لیے صرف خواندہ ، باشعور اور ذمہ دار شہری ہی استعمال کرسکتے ہیں۔ تاہم، سوشل میڈیا کے بلاتخصیص استعمال نے افراد، سوسائٹی اور قوم کے لیے بھی کئی مسائل کھڑے کردیے ہیں۔

پرنٹ میڈیا والی مسلمہ صحافت میں شاذونادر اشتعال انگیز مواد شائع ہوا کرتا تھا۔ مگر سوشل میڈیا نے زیادہ تر منفی روش اختیار کی ہے۔ اسے سماج میں منافرت پھیلانے اور شہریوں کو بھڑکاتے ہوئے امن و امان کو بگاڑنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ غیرمعتبر مواد کی بہتات ہوگئی ہے اور بالخصوص ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے خواتین و مرد پریشان ہونے لگے ہیں۔ کوئی غیرذمہ دار فرد کسی فضول یا پریشان کن پوسٹ ، آڈیو ویڈیو کلپ واٹس ایپ کے بشمول کوئی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ڈال دیتا ہے تو ہندوستان میں دیکھتے ہی دیکھتے وہ وائرل (عام) ہوجاتا ہے اور شہریان اکثر خوف میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اس لیے نہ صرف حکومت ہند بلکہ تمام ریاستی حکومتوں کو سائبرکرائم کے قوانین کو سخت تر بنانے کی ضرورت ہے اور اس شعبے کی کارگزاری کی شرح میں قابل لحاظ اضافہ ہونا ضروری ہے۔

ایسا نہیں کہ سوشل میڈیا سے صرف خرابیاں جنم لے رہی ہیں۔ سرکاری اور خانگی شعبے کے بے شمار ادارے واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کا بھرپور تعمیری استعمال کررہے ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ نئی نئی ٹکنالوجی ترقی یافتہ ملکوں میں ایجاد ہوتی ہے جس کا مقصد انسانیت اور سماج کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے۔ مگر ایشیا جو ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے افراد والا براعظم ہے، اُن میں انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش وغیرہ کا بڑا حصہ ہے۔ اس لیے دیگر ملکوں کے مقابل سوشل میڈیا کا اچھا استعمال کم ہوتا ہے۔ ورنہ یہ دنیاوی نعمت ہے، نہ کہ مصیبت۔ عام افراد کے لیے سوشل میڈیا اپنے خاندان، دوستوں، رفقائے کار اور دیگر لوگوں سے جڑے رہنے کا بہت کارگر ذریعہ ہے۔ وہیں حکومتیں بھی عوام کے مفاد میں اسے استعمال کرنے لگی ہیں جو خوش آئند ہے۔ بس سوشل میڈیا کے استحصال پر گرفت مضبوط کرلی جائے تو یہ بڑے فائدہ کی چیز ہے۔

Find out more: