زندگی میں بعض فقرے عام ہوجاتے ہیں، لوگ اکثر و بیشتر استعمال کرتے ہیں۔ ایسا ہی فقرہ ہے ” یہ ہونے پر وہ ہوا، وہ نہ ہوتا تو شاید یہ نہ ہوتا “۔ ان الفاظ اور فقروں کو پڑھنے میں کچھ عجیب لگتا ہے کیوں کہ بعض الفاظ کی تکرار رہتی ہے۔ آج کی تحریر کیلئے مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ یہی فقروں پر لکھتے ہوئے چند واقعات پیش کئے جائیں؟ میں اس سلسلہ میں مختلف شعبوں کے دو، تین مثالیں بیان کرنا چاہوں گا کہ اصل یا قطعی نتیجہ آنے کے بعد ہم گزری باتوں کے تعلق سے سوچیں تو کچھ عجیب معلوم ہوگا۔ البتہ ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ اگر کوئی غلطی کا معاملہ ہو تو اس کا اعادہ نہ کرنے کا عزم کرتے ہوئے زندگی میں آگے بڑھا جائے۔
اسلام میں قربانی کو ’ خلیل اللہ ‘ ابراہیم علیہ السلام کی سنت قرار دیا گیا ہے اور اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے عیدالاضحی رائج کی ہے۔ سنت ِ ابراہیمی ؑ کا پس منظر بڑا دلچسپ اور ایمان افروز ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کو بڑی عمر میں اولاد نصیب ہوئی جو آگے چل کر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کہلائے۔ جب اسمٰعیل ؑ کمسنی سے لڑکپن کے درمیان تھے، حضرت ابراہیم ؑ بار بار ایسا خواب دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنی کوئی نہایت محبوب چیز کو اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے قربان کررہے ہیں۔ پھر خواب میں ایسا بھی دیکھا کہ آپ ؑ خود اپنے لاڈلے بیٹے اسمٰعیل ؑ کو اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر اپنے ہاتھوں سے ذبح کررہے ہیں۔ چونکہ نبیوں، پیغمبروں اور رسولوں کے خواب جھوٹے یا محض ہاضمے کی گڑبڑ نہیں ہوتے، اس لئے حضرت ابراہیم ؑ فکرمند ہوئے کہ آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کو کس طرح پوری کریں۔
آپ ؑ نے آخرکار اپنے بیٹے کو واقف کرانا مناسب سمجھا اور پھر آنے والے وقت کے پیغمبر اسمٰعیل علیہ السلام نے اپنے والد محترم کو کیا خوب جواب دیا کہ آپ ؑ کر گزریئے جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ ہوا ہے، آپ ؑ مجھے صابر پائیں گے۔ پھر مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے جب واقعی اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے کو زمین پر لٹا کر گلے پر چھرا پھیر دیا ، اور اپنی آنکھوں سے پٹی نکالی تو آپ ؑ کو زبردست خوشگوار حیرت ہوئی کہ بیٹے اسمٰعیل ؑ تو مسکراتے ہوئے بازو کھڑے ہیں اور ان کی جگہ اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام سے دفعتاً بھیج کر دنبا قربان کرایا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی ادائے تعمیل احکام الٰہی کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر پسند کیا کہ قیامت تک قربانی کو استطاعت رکھنے والے مسلمانوں کیلئے فرض قرار دیا۔
ذرا سوچئے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسمٰعیل ؑ کو باپ ابراہیم ؑ کے ہاتھوں ذبح ہونے دیا ہوتا، اور پھر اسے آنے والے وقت بالخصوص آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کیلئے فرض کردیا ہوتا، تو کیا طوفان برپا ہوجاتا۔ آج ہم میں اکثریت ایمان اور الٰہی احکام کیلئے اپنا تھوڑا آرام، تھوڑی نیند، تھوڑے پیسے قربان نہیں کرپا رہی ہے تو وہ کس طرح اپنے بیٹوں کو سال بہ سال قربان کرپاتے؟ واقعی جو ہوا، وہ پوری انسانیت کیلئے کتنا بڑا راحت کا سامان ہوا؟
اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں مرکز کی این ڈی اے حکومت کے دوران اواخر 1999 میں گجرات میں چیف منسٹر کیشو بھائی پٹیل ( بی جے پی ) کی صحت وزارت اعلیٰ کے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ ویسے بی جے پی حکومت کی کارکردگی بھی خراب چل رہی تھی اور عوام کی ناراضگی کے پیش نظر ریاستی قیادت میں تبدیلی لانا تھا۔ تب تک آر ایس ایس اور بی جے پی تنظیمی امور سے وابستہ نریندر مودی کو وزیراعظم واجپائی اور وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی نے کیشو بھائی کی جگہ درمیانی میعاد میں چیف منسٹر مقرر کردیا۔ وہ ضمنی چناو میں رکن اسمبلی بن گئے اور یوں تقریباً دو سال گزر گئے۔ 2002 کے اواخر میں چیف منسٹر مودی کو ریاستی اسمبلی کے الیکشن کا سامنا تھا۔
اس دوران امریکا میں 9/11 کا نہایت مشکوک واقعہ پیش آیا، جس کیلئے امریکی حکومت، اسرائیل اور لگ بھگ ساری عالمی قیادت نے اسامہ بن لادن کو مورد الزام ٹہرایا۔ اسامہ کیلئے افغانستان میں پناہ لینے کے سوا چارہ نہ تھا، جہاں طالبان کی حکمرانی تھی، جس سے امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کو کافی بغض تھا۔ چنانچہ جارج بش کی قیادت میں امریکا نے سب سے پہلے طالبان حکومت کو گرایا، اسامہ کو ڈھونڈنے کے بہانے برسہابرس افغانستان میں تباہی مچائی، پھر چند سال قبل صدر براک اوباما کے دور میں امریکا نے یکایک اعلان کیا کہ اسامہ بن لادن کو پاکستان کے ایبٹ آباد میں گرفتاری کی کوشش میں مجبوراً جان سے مارنا پڑا۔ اس عرصے میں امریکا نے گلف میں اپنے متعدد مفادات پورے کئے، عراق سے صدام حسین کو نہ صرف بے دخل کیا، بلکہ ان کو پھانسی تک دی۔
کسی بڑے واقعہ کا بہت گوشوں میں اثر پڑتا ہے اور کئی لوگوں کو اس سے تحریک ملتی ہے۔ جس طرح 9/11 پر امریکا نے واویلا مچا کر اپنا الو سیدھا کیا، میرے خیال میں چیف منسٹر مودی اور بی جے پی قیادت نے ایسی ہی چال سوچی۔ میرے پاس سیاہ و سفید میں ثبوت نہیں لیکن میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تباہی اور 2002 کے گودھرا واقعہ کے بعد گجرات فسادات واقعات میں مشابہت کو پیش کررہا ہوں۔ آگے ان باتوں کا کیا مطلب نکالا جائے، میں قارئین پر چھوڑ رہا ہوں۔ فبروری 2002 میں گودھرا اسٹیشن پر اترپردیش سے آنے والے کارسیوکوں کا ٹرین کوچ نذر آتش ہوا یا اسے کیا گیا، جو بھی 50 سے زائد اموات ہوئیں۔ اس کے بعد ردعمل میں ہندووں نے لگ بھگ پورے گجرات میں جو کچھ کیا، وہ جگ ظاہر ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق 2,000 مسلمان مارے گئے، باقی نقصانات علحدہ ہیں۔
پھر ڈسمبر 2002 میں نہایت کشیدہ ماحول میں گجرات کا اسمبلی الیکشن ہوا، جس میں چیف منسٹر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو آسانی سے کامیابی مل گئی۔ عملی طور پر کوئی مزاحمت نہیں ہوئی کیوں کہ قابل لحاظ مسلم ووٹروں نے پولنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔ تب سے آج تک گجرات میں بی جے پی اقتدار برقرار ہے اور اسے پہلی بار جھٹکہ 2017 کے ریاستی چناو میں ہوا جب راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس نے برسہا برس اچھا مظاہرہ کیا۔ تاہم، بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل نہیں کیا جاسکا۔ مودی ادھر قومی منظر پر چھانے لگے تھے اور 2014 کے بعد رواں سال دو متواتر لوک سبھا الیکشن میں کامیابیوں نے وزیراعظم مودی کو بہت طاقتور لیڈر بنا کر پیش کیا ہے۔ جب بھی 9/11 کا واقعہ یاد آتا ہے تو 2002 کے گودھرا و گجرات واقعات بھی ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔
ورلڈ کپ 1983 میں کپل دیو کی قیادت میں ہندوستان کی ویسٹ انڈیز کے خلاف سنسنی خیز خطابی فتح دنیائے کرکٹ میں اپنی نوعیت کی تاریخی کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ اس سے قبل کے دو ورلڈ کپ ٹورنمنٹس میں ویسٹ انڈیز کو ایک دو ٹیموں نے چیلنج ضرور پیش کیا تھا مگر اپنے عروج کے دور میں ’ کالی آندھی ‘ قرار دی جانے والی ٹیم نے ابتدائی دونوں خطابات کوئی واحد میچ ہارے بغیر جیتے تھے۔ جب ورلڈ کپ میں پہلی بار ہندوستان نے ویسٹ انڈیز کو لیگ میچ میں ہرایا تو ہر کسی کو اچنبھا ہوا۔ ویسے ورلڈ کپ سے عین قبل انڈیا نے ویسٹ انڈیز کو ویسٹ انڈیز میں ہی ونڈے انٹرنیشنل میچ ہرا دیا تھا۔
ورلڈ کپ 1983 میں ہندوستان کو زمبابوے کے خلاف ایسی نازک صورتحال پیش آئی کہ اسکور پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 17/5 تک گھٹ چکا تھا اور یہ میچ ہارنے کی صورت میں کپل کی ٹیم کا سیمی فائنل میں رسائی حاصل کرنا غیریقینی ہونے والا تھا۔ ایسے موقع پر کپل نے 175 ناٹ آوٹ کی یادگار اننگز کھیلی، جن کا وکٹ کیپر بیٹسمن سید کرمانی نے ہاف سنچری کے ذریعے بھرپور ساتھ دیا۔ وہ مقابلہ انڈیا نے نسبتاً آسانی سے جیتا اور پھر انگلینڈ کو ہرا کر فائنل تک پہنچ گیا۔ فائنل میں ہندوستانی ٹیم پہلے بیٹنگ میں 183 کے معمولی اسکور پر ڈھیر ہوگئی۔ تب میچ کا راست یا بالواسطہ مشاہدہ کرنے والوں نے شاید ہی سوچا تھا ہوگا کہ ہندوستان ورلڈ کپ ٹروفی 43 رنز سے جیت جائے گا۔ ٹارگٹ کے تعاقب میں جارحانہ ویوین رچرڈز ایک مرحلے پر چوکوں پر چوکے لگا رہے تھے۔ تب مدن لال کی گیند پر کپتان کپل دیو نے جس طرح مشکل کیچ کو آسان بنایا، وہ بھی یادگار ہے۔ معلوم نہیں، اگر وہ کیچ کپل نہ پکڑتے تو انڈیا کی جیت ہوپاتی؟