مہذب دنیا میں انسان سماج میں بندھا رہتا ہے اور وہ اسی طرح رہ سکتا ہے، ورنہ اس کا جینا محال ہوجائے گا۔ سماجی بندھن کے ساتھ ہی انسانوں کے مابین مختلف نوعیت کے رشتوں کا تصور ابھر آتا ہے۔ ماں اور باپ کا رشتہ، بھائی اور بہن کا رشتہ، شوہر اور بیوی کا رشتہ وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام رشتوں میں کسی انسان کا اس کے ماں باپ کے ساتھ رشتہ سب سے قابل احترام اور مقدس رشتہ ہوتا ہے، جس کی برابری کوئی دیگر رشتہ نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد بھائی اور بہن کا مخصوص اور ایک دوسرے کیلئے تسلی دینے والا رشتہ ہوتا ہے۔ جب تک کسی کی شادی نہیں ہوجاتی، ان کو اپنا رشتہ نبھانے کا زیادہ موقع ملتا ہے اور پھر صورتحال بدل جاتی ہے۔
تمام رشتوں میں سب سے نازک ازدواجی رشتہ ہوتا ہے۔ یہ کافی مضبوط ہوسکتا ہے اور بہت کمزور بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ سماج میں اپنے اطراف و اکناف دیکھیں کہ شوہر اور بیوی کی بڑی تعداد کافی تال میل سے زندگی گزارتے ہیں اور آخری سانس تک وہ ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ مگر بدلتے دور کے ساتھ شوہر اور بیوی کے رشتے غلط فہمی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ بعض معاملوں میں تو معمولی باتوں اور موضوعات پر شوہر اور بیوی کے رشتے میں دراڑ پڑرہی ہے اور اس کا منطقی انجام اچھا نہیں ہورہا ہے۔
خدا نے شوہر اور بیوی کا رشتہ ہی ایسا دلچسپ اور عجیب بنایا کہ دو مخالف جنس کے اجنبی افراد ایک رسم کی تکمیل پر زندگی بھر کیلئے ایک دوسرے سے روحانی و جسمانی طور پر وابستہ ہوجاتے ہیں۔ یہی روحانی و جسمانی رشتہ اگر شوہر اور بیوی سے ہٹ کر اجنبی مرد اور عورت میں ہو تو گناہ اور قابل مذمت و سزا ہوجاتا ہے۔ تاہم، شوہر اور بیوی کے رشتے میں اچھا تال میل برقرار رہے تو اس جوڑے کی زندگی خوشی اور ذہنی آسودگی کا مظہر بن جاتی ہے۔ یہی تو اس خاص رشتے کی خوبصورتی ہے۔
موجودہ دور میں جہاں بہت سارے عیوب مہذب سماج میں سرایت کرگئے ہیں، وہیں شوہر اور بیوی کا رشتہ غلط فہمی کا شکار ہونے لگا ہے۔ شوہر کو بیوی پر اور بیوی کو شوہر پر اعتماد ہونا ضروری ہے۔ جب یہ بھروسہ کمزور ہوجائے تو ایک دوسرے کے تعلق سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں، جس کے اثرات 24 گھنٹے کی زندگی پر پڑتے ہیں۔ اولاد پر بہت خراب اثر پڑتا ہے۔ غرض اس فیملی کا نقصان ہی نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے شوہر اور بیوی کو کسی بھی مسئلہ پر غلط فہمی پیدا ہوجائے تو دوسرا فریق اسے دیانتداری سے دور کرنے کی کوشش کرے۔ تب ہی اس غلط رجحان کو ختم کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭