راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہندوستانیوں اور ان کے مذہب و عقیدہ کے تعلق سے پھر ایک بار گزشتہ ہفتے قابل گرفت و متنازع بیان دیا۔ انھوں نے حیدرآباد کے ایل بی نگر میں 25 ڈسمبر کو آر ایس ایس کی ایک تقریب کے دوران کہا کہ ہندوستان کی 130 کروڑ آبادی کا ہر فرد ”ہندو“ ہے، نیز یہ کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر فرد ”ہندو“ ہوتا ہے۔ 69 سالہ موہن بھاگوت مارچ 2009 میں آر ایس ایس سرسنگھ چالک کے طور پر کے ایس سدرشن کے جانشین بنے۔ تب سے وہ کئی بار اس طرح کا اشتعال انگیز بیان دے چکے ہیں۔ 2014 تک ڈاکٹر منموہن سنگھ کی یو پی اے حکومت کے دوران ان کی بیان بازی زور و شور سے نہ ہوئی مگر نریندر مودی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے کیا بی جے پی، کیا آر ایس ایس اور کیا ملحقہ تنظیمیں، سب کے تیور ہی بدل گئے ہیں۔ وہ ہندوستان کو اپنی جاگیر سمجھنے لگے ہیں۔

 

موہن بھاگوت کے خلاف پہلی بار حیدرآباد، تلنگانہ کے سینئر کانگریس لیڈر وی ہنمنت راو نے ان کے ایل بی نگر میں دیئے گئے بیان پر متعلقہ پولیس میں شکایت درج کرائی۔ مجھے اس پورے عرصے میں تعجب ہوتا رہا کہ ملک بھر میں اتنے مسلم ایڈوکیٹ، بیرسٹر اور سیاستدان ہیں لیکن کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ موہن بھاگوت یا متعدد دیگر مرکزی وزراءاور بی جے پی و آر ایس ایس کی ملحقہ تنظیموں کے لیڈروں کے خلاف عدالتوں سے رجوع ہوتے۔ لوک سبھا الیکشن 2019 کی بات ہے کہ کانگریس نے رفائل معاملت میں مبینہ کرپشن کا مسئلہ اٹھایا اور اسے انتخابی موضوع بھی بنایا۔ اس سلسلہ میں تب کے صدر کانگریس راہول گاندھی نے وزیراعظم مودی کو ”چوکیدار چور ہے“ کے نعرے سے نشانہ بنایا۔ دہلی کی بی جے پی ایم پی میناکشی لیکھی نے راہول گاندھی کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ حکومت ہند سے لے کر فرانس میں رفائل بنانے والی کمپنی تک ظاہر طور پر کچھ ایسا تال میل رہا کہ صدر کانگریس ”چوکیدار چور ہے“ کو حق بجانب ثابت کرنے سے قاصر رہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ نے ان کی سرزنش کی اور ان کو غیرمشروط معذرت خواہی کرنی پڑی۔

 

رفائل معاملہ تو کرپشن کا ہے لیکن موہن بھاگوت سرے سے کروڑہا ہندوستانیوں کی مذہبی شناخت اور ان کے عقیدہ کو روند رہے ہیں۔ 20 کروڑ سے زائد مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ یہاں سکھ ہیں، عیسائی ہیں، پارسی ہیں، بودھ ہیں، یہودی ہیں، دہریے ہیں نیز اور بھی علحدہ مذہبی شناخت اور عقیدے والے شہری ہوں گے۔ ان سب کو ملائیں تو مجموعی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کی آبادی کے شاید 20 فی صد بھی نہ ہوں گے۔ سکھوں کی غیرت نے للکارا اور وہ موہن بھاگوت کے ”تمام ہندوستانی ہندو“ کے بیان کی کئی مرتبہ شدید مذمت کرچکے ہیں۔ دیگر چھوٹی چھوٹی برادریاں بھی سربراہ آر ایس ایس کے دعوے کو خاطر میں نہیں لاتی ہیں۔

 

چھوٹی اقلیتوں کے برخلاف ہندوستانی مسلمانوں کی لگ بھگ پوری آبادی ڈری ہوئی، سہمی ہوئی اور بزدل معلوم ہوتی ہے۔ ان میں کبھی اکثریتی فرقے کی نامعقول باتوں پر ٹکرانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ کم از کم سابق ایم پی و موجودہ اے آئی سی سی سکریٹری برائے تلنگانہ ہنمنت راو سے سبق سیکھ کر ہمارے ”قابل ایڈوکیٹ اور بیرسٹر“ کو اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ کروڑپتی اور ارب پتی سیاستدانوں کو آخر کس کا انتظار ہے یا کس بات کا ڈر ہے کہ وہ سڑکوں پر احتجاج سے گھبراتے ہیں، سپریم کورٹ تک پہنچنے سے گریز کرتے ہیں؟ 

 

موہن بھاگوت یا کسی بھی غیرمسلم لیڈر کی نامعقول بیان بازی پر پولیس میں شکایت درج کرانے یا عدالتوں میں مقدمات دائر کرنے کا جہاں تک معاملہ ہے، یہ کام ہر شہری کرسکتا ہے، چاہوں تو میں بھی کرسکتا ہے۔ تاہم دو باتیں ہیں۔ اول، میرے جیسے کسی عام آدمی کے شب و روز اور مادی وسائل اپنی فیملی کی دیکھ بھال کے فرض کی تکمیل میں گزر جاتے ہیں۔ دوم، ہمارے نمائندہ ایم ایل ایز، ایم پیز جیسے وی آئی پیز اور خصوصیت سے قانون کے تعلیم یافتہ شہریان آخر کس مرض کی دوا ہیں؟ ہماری مذہبی شناخت اور ہماری شہریت پر سوال اٹھائے جارہے ہیں، تب بھی کیا وہ دولت بٹورنے کے اپنے ”پسندیدہ مشغلہ“ میں مگن رہیں گے؟

 

آج ملک میں مودی۔ شاہ حکومت کے احمقانہ نئے قانونِ شہریت (سی اے اے) اور این پی آر نیز مجوزہ این آر سی سے ملک میں بالخصوص مسلمانوں پر عجیب غیریقینی کیفیت کا ماحول چھایا ہوا ہے۔ میں بحیثیت صحافی اپنی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کررہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ موجودہ طور پر صرف مسلم ایم ایل ایز، ایم پیز اور قانونی شخصیتوں نیز اکثر عمائدین ملت کو چھوڑ کر زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والا مسلم اپنی اپنی حیثیت کے مطابق احتجاج کررہا ہے اور اپنی آواز بلند کررہا ہے۔ ہنمنت راو کی جرا¿ت اور ان کے حوصلے کو سلام کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ مسلم قیادت اور عمائدین ملت کو حقیقی معنوں میں رہنما بنائے، اگر وہ خود کو نہیں بدل سکتے تو ان کو حقیقی معنوں میں مخلص و دیانت دار قائدین و عمائدین سے بدل دیجئے۔ آمین۔
٭٭٭

Find out more: