آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہندوستان میں بعض غیرمسلم گوشوں کی جانب سے شریعت ِ محمدی کی گنجائشوں کو چیلنج کرنے پر سپریم کورٹ سے رجوع ہوا ہے۔ سپریم کورٹ کثرت ِازواج (ایک سے زیادہ شادیاں کرنا) اور حلالہ کے مسئلوں پر مسلم پرسنل لا بورڈ کی عرضی پر سماعت سے اتفاق کیا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کا کہنا ہے کہ کسی بھی برادری کے مذہبی امور میں مداخلت ہرگز درست نہیں۔ اس لئے یہ مسئلوں کو چھیڑنا سماج میں انتشار پیدا کرنے کے مترادف ہے۔

 

ہندووں کے پاس ایک بیوی رکھتے ہوئے دوسری شادی کرنا بلکہ بعض کے پاس تو بیوی مربھی جائے تو دوسری شادی کرنے کی مذہبی طور پر اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح وراثت اور کئی دیگر معاملوں میں ہندووں کے مذہبی رواج دیگر مذاہب سے بہت مختلف ہیں۔ اگر ہر کوئی ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے لگے تو سماج میں نراج اور بحران پیدا ہوجائے گا۔ لوگ ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے لگیں گے اور پرامن ماحول میں زندگی گزارنا مشکل ہوجائے گا۔

 

مذہب ہر فرد کی مرضی اور زور زبردستی کے بغیر قبولیت کا معاملہ ہے۔ اس کی آزادی ہندوستان کے دستور نے دے رکھی ہے کہ ہر فرد اپنی مرضی سے کسی بھی مذہب پر عمل پیرا رہ سکتا ہے۔ فطرت کے اعتبار سے بھی مذہب کا انتخاب اور اس پر عمل کرنا خوش دلی کا معاملہ ہے۔ کوئی دل سے اتفاق نہ کرے اور ذہن سے قبول نہ کرے تو اسے کسی مخصوص مذہب کی طرف مائل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی کو اقتدار اور طاقت حاصل ہے تو زیادہ سے زیادہ وہ اپنے زور پر کسی کو جسمانی طور پر مجبور کرسکتا ہے لیکن قلبی اور ذہبی طور پر کوئی کسی کو مخصوص مذہب پر عمل کیلئے مائل نہیں کرسکتا ہے۔

 

مسلم پرسنل لا بورڈ کا اقدام بالکلیہ درست ہے کہ سپریم کورٹ ہندوستان میں کسی کو بھی کسی دیگر کے مذہبی امور میں مداخلت سے روکے۔ ایک سے زیادہ شادیوں کی جہاں کسی مذہب میں اجازت نہیں ہے، وہیں اسلام میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعے اپنے بندوں کو اس کی اجازت دی ہے۔ حلالہ کا معاملہ یوں ہے کہ اگر کسی بیوی کو طلاق ہوجائے لیکن دونوں فریقوں کو پچھتاوا ہو اور وہ دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنا چاہیں تو فوری ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔ طلاق شدہ عورت کو کسی اور مرد سے نیک نیتی کے ساتھ شادی کرنی ہوگی۔ پھر اتفاق سے اس کو وہاں بھی طلاق ہوجائے تو تب بھی پرانے شوہر و بیوی ایک دوسرے سے نکاح کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ طلاق کے بعد مطلقہ کو اس شرط کے ساتھ کسی اور مرد سے شادی کرنے کی اجازت نہیں کہ وہ اس چھوئے نہیں اور کچھ معاوضہ کے عوض طلاق دے تاکہ ظاہر طور پر ”حلالہ“ ہوجائے اور وہ اپنے پرانے شوہر سے دوبارہ شادی کرسکے۔
٭٭٭

Find out more: