ہم سب کے خالق نے ہمیں جوڑوں میں پیدا کیا ہے۔ اس لئے ہم میں مذکر اور مونث ایک دوسرے کی ضرورت ہوتے ہیں، ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں، ایک دوسرے کیلئے سکون کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اوپر والے نے بعض عورتوں اور بعض مردوں کو جوڑ کے بغیر زندگی عطا کی اور وہ تنہا ہی اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ تاہم، ایسے افراد کی تعداد کم ہوتی ہے۔ سماج میں بھاری اکثریت میں جوڑے ملتے ہیں۔ اس لئے فی الحال ان ہی کی بات کرتے ہیں۔
عورت اور مرد کی شادی ہوتی ہے۔ انھیں قابل لحاظ زندگی عطا ہوئی تو وہ بڑھاپے تک ایک دوسرے کے ساتھ جیتے ہیں۔ عموماً ہندوستان میں 60 سال کے بعد متوقع زندگی کا بھروسہ نہیں رہتا۔ زیادہ تر مرد اور پھر عورت بھی اپنی زندگی پوری کرکے اس دنیا سے رخصت ہوسکتی ہے۔ دونوں ایک ساتھ اِس دنیا سے چلے جائیں، ایسا تو شاذونادر ہوتا ہے۔ بہت کم تناسب کو چھوڑ کر شوہر اور بیوی میں شوہر کی عمر کم از کم چار پانچ سال زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ اور کم فرق بھی ہوسکتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ شوہر کا انتقال ہوجائے تو بیوہ کا انحصار اولاد پر ہوجاتا ہے۔ اولاد اگر ناخلف نہ ہو تو اچھا ہو، ورنہ بیوہ کو در، در کی ٹھوکریں کھانی پڑیں گی۔
اگر بیوی کا پہلے انتقال ہوجائے تو شوہر کیلئے زیادہ مشکل ہوجاتی ہے۔ اول تو بہت کم شوہروں کو گھر گرہستی کے بارے میں خاطرخواہ معلومات ہوتی ہیں۔ مرد چونکہ کمانے والا ہوتا ہے، اس لئے شاید کوئی معاملہ میں ایسا ہوتا ہے کہ شوہر معاشی طور پر مجبور ہو۔ اس لئے وہ اولاد پر معاشی طور پر منحصر نہیں ہوتا ہے۔ تاہم، مرد اور عورت کا ساتھ بڑی نعمت ہے۔ جب یہ نعمت چھن جائے تو اسے برداشت کرنے میں عورت کے مقابل مرد کمزور ثابت ہوتا ہے۔
مجھے خیال آتا ہے کہ سماج کو نئی شادیوں کے ساتھ ساتھ ایسے معاملوں پر بھی نظر ڈالنا چاہئے۔ بیوائیں تنہا نہیں ہونی چاہئیں۔ اسی طرح بیوی سے محروم شوہر اگر اچھی صحت اور دوسری بیوی کی کفالت کے قابل ہو تو اس شخص کی دوسری شادی کرا دینا اولاد اور متعلقین کا کام ہے۔ بعض جگہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اولاد اپنی ماں سے محروم باپ کی دوسری شادی پر نظر ہوجاتی ہے۔ یہ غلط ہے۔ وہ خود اگر شادی شدہ ہیں تو انھیں جلد سمجھ میں آجانا چاہئے کہ تنہا باپ کیلئے کوئی خاتون کی کیوں ضرورت ہے؟ اور اگر وہ شادی شدہ نہیں ہیں تو ان کو آنے والے وقت میں سمجھ آجائے گا۔ اس سے قبل اگر کوئی متعلقین اسے سمجھا سکیں تو یہ کام ضرور کرنا چاہئے۔
٭٭٭