انسانی زندگی اوپر والے نے کچھ اس طرح ترتیب دی ہے کہ اس میں آسانی سے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہر ایک کو اپنی ضرورت یا دوسروں کا کچھ اچھا کرنے کیلئے محنت کرنا ہی پڑتا ہے۔ میرے خیال میں فلسفیانہ انداز کے دو جملے کافی ہیں .... ہا ہا ہا .... مجھے ہنستے مسکراتے لوگ زیادہ پسند آتے ہیں۔ ظاہر ہے میں خود بھی ایسا ہی ہوں یا ایسا بننے کی جستجو میں رہتا ہوں۔ بے شک، زندگی میں صرف ہنسنے ، مسکرانے سے کام نہیں چلتا۔ زندگی کی تلخیاں اور اس میں پیش آنے والی فطری تبدیلیاں بعض اوقات ہمیں بے اختیار افسردہ ہونے بلکہ کم یا زیادہ رونے پر مجبور کردیتے ہیں۔
بہرحال، گزشتہ دنوں مشہور اسٹانڈ۔اَپ کامیڈین کا ’یو ٹیوب‘ پر ایک ایپی سوڈ دیکھا۔ کافی اچھا لگا۔ تاہم، میں نے محسوس کیا کہ راجیو کا پیشہ کامیڈی پیش کرتے ہوئے تھکن بھرا دن گزارنے والوں کو بے اختیار کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور کرنا ہے۔ جاب تو میں بھی کرتا ہوں، بالغ انسانوں کی بڑی اکثریت کرتی ہے، خواتین کی گھرگرہستی کو تو میں ’ڈبل جاب‘ کہوں گا۔ ان کو عملاً نہ چھٹی ہوتی ہے، نہ جاب کا فکسڈ ٹائم۔ اس کے باوجود مجھے کامیڈی اور کامیڈینس پر رشک آتا ہے کیونکہ ہمارا جاب اپنے اور اپنی فیملی اور زیادہ سے زیادہ کچھ غریبوں کیلئے معاشی انتظام کرنے کیلئے ہوتا ہے۔ مگر اسٹانڈ اپ کامیڈینس ان تمام ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے میرے، آپ کے اور سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں افراد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ، چہرے پر تازگی اور تھکن دور کرنے والی ہنسی لے آتے ہیں۔
میوزیکل اسٹائل سے تحریک پاتے ہوئے اسٹانڈ۔اَپ کامیڈی شروع ہوئی جو مزاحیہ مواد پیش کرنے کا منفرد اسٹائل ہے جس میں کامیڈین ناظرین کے روبرو اپنا فن پیش کرتا ہے اور عام طور پر ان سے راست مخاطب ہوتا ہے۔ ایسے پرفارمر کو عام زبان میں اسٹانڈ۔اَپ کامیڈین کہتے ہیں۔ کامیڈینس کی بات چلی ہے تو مجھے یقین ہے قارئین کو فلمی یا ٹی وی کی دنیا کے کامیڈینس کا خیال آرہا ہوگا۔ بالی ووڈ میں کئی بے مثال کامیڈینس ہوئے جیسے محمود، جانی واکر، جگدیپ، راجیندر بیدی، آئی ایس جوہر، قادر خان، جانی لیور، راجو سریواستو، ارجن رامپال یادو ، وغیرہ۔ چھوٹے اسکرین پر کپل شرما چھاگئے ہیں جو 2005 میں ٹی وی چیانل ’اسٹار وَن‘ پر شروع کردہ ”دی گریٹ انڈین لافٹر چیلنج“ ہیں۔ اسی ریالیٹی ٹی وی شو کے ذریعے کئی اسٹانڈ اپ کامیڈینس نمودار ہوئے، جیسے سنیل پال، وشواس چوہان، نوین پربھاکر، روف لالہ، وغیرہ مگر کسی کو بھی کپل شرما جیسی مقبولیت یا کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ وہ 2016 سے ”دی کپل شرما شو“ کے ذریعے اپنی عمدہ اسٹانڈ اپ کامیڈی سے ناظرین کو محظوظ کررہے ہیں۔ یہ شو ”سونی انٹرٹینمنٹ ٹیلی ویژن“ پر دستیاب ہے۔
کامیڈی کا ذکر آئے اور میرے وطن حیدرآباد کا ذکر نہ چھڑے، ایسا ہو نہیں سکتا۔ بھارت میں قومی دارالحکومت نئی دہلی کو ”دل والوں کا شہر“ کہتے ہیں۔ اس کا مجھے شخصی طور پر تو تجربہ نہیں، لیکن اپنے تاریخی شہر کے تعلق سے فخریہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ دو باتوں کیلئے ممکنہ طور پر کم از کم بھارت کا منفرد شہر ہے۔ ایک، مروت یا انسانی ہمدردی۔ دوسرے، طنز و مزاح۔
فی الحال کامیڈی کا موضوع جاری ہے، میں اس لئے ”اَدرک کے پنجے“ کی یاد تازہ کروں گا۔ یہ شخص واحد ببن خان کا لکھا اور پیش کردہ طویل ترین مزاحیہ شو ہے۔ اسے اسٹانڈ اپ کامیڈی کے بجائے ’کامیڈی ڈرامہ‘ کی کیٹگری میں ڈالنا پڑے گا کیونکہ یہ شو صرف ایک شخص پیش نہیں کرتا، اس کے ساتھ اور بھی کردار ہوتے ہیں، نیز یہ تھیٹریکل کامیڈی شو ہے۔ یہ اتنا مشہور ہوا کہ 1965 سے 54 سال مکمل کرچکا ہے۔ 1975 سے حامد کمال اور سبحانی کا کامیڈی پروگرام ”دیڑھ متوالے“ بھی اپنی نوعیت کی بے مثال دکھنی اسٹانڈ اپ کامیڈی ہے۔ اس کے علاوہ حیدرآباد نے کئی اسٹانڈ اپ کامیڈینس پیدا کئے، جیسے حبیب قدیر ، قادر شریف، وغیرہ ۔ حالیہ برسوں میں جب حیدرآبادی فلموں میں تیزی آئی، گلو دادا (عدنان ساجد خان) ، سلیم پھیکو، خیرالدین بیگ جانی جیسے کامیڈینس اُبھرے ہیں۔ جانی نے اسٹانڈاپ کامیڈی اور فلم کامیڈی میں بہ یک وقت اپنی شناخت بنائی ہے۔
میں حیدرآبادی ہوں، اس لئے کالم کیلئے فوٹو سلیکشن کا معاملہ آیا تو بالی ووڈ کے ’کامیڈی کنگ‘ محمود کے ساتھ حامد کمال کی یادگار ملاقات کی تصویر منتخب کیا۔
٭٭٭