امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر بھارت کے دورے پر آمد سے ایک روز قبل قومی دارالحکومت دہلی میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) پر تشدد بھڑک اٹھا جو گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ تادم تحریر اس تشدد میں 10 جانیں تلف ہوچکی ہیں اور مالی نقصان کا تو ابھی کوئی تخمینہ نہیں کیا جاسکتا۔ ٹرمپ کے انڈیا ٹور سے قبل یکایک سی اے اے کی حمایت کرنے والے حرکت میں آگئے اور ظاہر طور پر اس قانون کے مخالفین کے ساتھ ان کی جھڑپیں ہوئیں۔ اس سے ایسا تاثر ظاہر ہوا کہ امریکہ جیسے طاقتور ملک کے سربراہ کے دور پر مخالف مودی۔ امیت شاہ حکومت عناصر ملک کی ساتھ کو متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟

 

تاہم، لگاتار تین روز کے تشدد کی نوعیت اور مرکزی حکومت کی بے عملی کو دیکھنے کے بعد واضح ہوگیا کہ ٹرمپ سے مودی حکومت کو منفی ردعمل کا کوئی اندیشہ نہیں اور بی جے پی کی حکومت شاید دہلی میں کراری انتخابی شکست کا غصہ مخالف سی اے اے احتجاجیوں پر اتار رہی ہے۔ لفظ ”پولیس “ کے ساتھ تصور آتا ہے کہ وہ قیام امن کیلئے اور تشدد کے خلاف کام کرتے ہیں۔ دہلی میں اس کے برعکس دیکھنے میں آرہا ہے۔ کئی پولیس والے سنگباری کرتے ہوئے کیمروں میں قید ہوچکے ہیں اور ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

 

موجودہ وزیراعظم ہند کے تعلق سے کئی بار ثابت ہوچکا ہے کہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے، وہ ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں، بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، اعداد و شمار کے الٹ پھیر میں مہارت رکھتے ہیں، وغیرہ۔ منگل کو دہلی کے حیدرآباد ہاوس میں امریکی صدر اور میزبان وزیراعظم کی سرکاری سطح کی بات چیت کے بعد مہمان لیڈر نے بیان دیا کہ پی ایم مودی چاہتے ہیں کہ عوام کو مذہبی آزادی حاصل رہے۔ میں سمجھتا ہوں، مودی کے تعلق سے جو خاصیتیں بیان کیا ہوں، اس معاملے میں ٹرمپ کہیں آگے ہیں۔ 

 

مودی گزشتہ چھ سال سے جو بھی نمایاں بیرونی لیڈر دورے پر آتا ہے اسے اپنی آبائی ریاست گجرات لے جاتے ہیں۔ یہ ملک کی بقیہ ریاستوں سے سراسر ناانصافی ہے۔ اتنا ہی اس مرتبہ تو ’سوپر پاور‘ کے سربراہ کی آمد کو دیکھتے ہوئے حکومت نے گجرات کے شہر احمدآباد کی سلم بستی کو چھپانے کیلئے دیواریں تعمیر کرائے۔ سٹلائٹس اور ’گوگل‘ کے دور میں ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کو یہ حرکت پر اعتراض نہ ہوا۔ امریکی صدر احمدآباد میں ’نمستے ٹرمپ‘ ایونٹ میں چند لاکھ افراد کی جانب سے اپنے استقبال پر پھولے نہ سما رہے ہیں۔

 

اتوار سے لے کر منگل تک دہلی میں تشدد کے درمیان ٹرمپ کا دورہ شروع ہوا ، اور ختم بھی ہوگیا۔ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے چند روز قبل ہی کانگریس (امریکی پارلیمنٹ کا ایوان زیریں) کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مذہبی آزادی اور اقلیتوں سے برتاو کے معاملے میں انڈیا کا مظاہرہ تشویشناک ہے۔ ٹرمپ کو امریکی ادارہ کی رپورٹ نظر آئی ، نہ ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران دارالحکومت شہر میں سی اے اے کے مسئلہ پر زائد از دو ماہ سے جاری احتجاج اور ہلاکت خیز تشدد نظر آیا۔ الٹا انھوں نے مذہبی آزادی کے معاملے میں مودی کی تعریف کی ہے۔ واہ ٹرمپ، واہ۔
٭٭٭

Find out more: