دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں اتوار، پیر اور منگل کو پیش آئے تشدد پر ہائی کورٹ نے پولیس اور نظم و نسق سے کہا تھا کہ نہایت غیرذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز بیان بازی کرنے والے لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر (فرسٹ انفرمیشن رپورٹ) درج کرنے پر غور کیا جائے۔ اس کے جواب میں مرکزی حکومت نے عدالت میں اپنی منطق پیش کی، جسے قبول کرتے ہوئے مرکز کو اپنا جواب دینے کیلئے چار ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ابتداءمیں ایف آئی آر درج کرنے کی بات کہنے والے جسٹس مرلیدھر کا اندرون 24 گھنٹے تبادلہ کردیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اسے 12 فبروری کا فیصلہ بتایا جارہا ہے۔
جسٹس مرلیدھر کے اجلاس پر جن بی جے پی قائدین کی تقاریر کے ویڈیو چلائے گئے، ان میں کپل مشرا، مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما شامل ہیں۔ ان میں زیادہ تر اشتعال انگیز ڈھٹائی کے ساتھ پولیس کی موجودگی میں کی گئی۔ پھر ویڈیو کی شکل میں واضح ثبوت موجود ہے۔ ایف آئی آر تو پولیس کو ازخود درج کرنا چاہئے تھا لیکن یہ معاملہ ہائی کورٹ تک پہنچا۔ جسٹس مرلیدھر نے ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت نہیں دی بلکہ پولیس اور حکومت سے کہا کہ ان قائدین کے خلاف مقدمہ دائر کرنے پر غور کیا جائے۔ اتنا بھی کہنا ان کیلئے بھاری پڑگیا اور انھیں دہلی ہائی کورٹ سے چلتا کردیا گیا۔ اگر وہ ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کرتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا؟
مرکز میں بی جے پی کی حکومت ایک میعاد مکمل کرنے کے بعد مودی۔ شاہ اقتدار معاشی ترقی کا ڈھونگ کرتے ہوئے دعوے کرنے لگا کہ بھارت تو 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے جو اگلے الیکشن 2024 تک مزید بڑی معیشت بھی ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے بالخصوص نومبر 2016 میں نوٹ بندی سے جاری احمقانہ اقدامات نے جی ڈی پی (مجموعی دیسی پیداوار) کو کبھی آگے بڑھنے نہیں دیا۔ 2014 سے قبل کے کئی برسوں میں بھارتی جی ڈی پی کی شرح آٹھ اور دس فیصد کے درمیان ہوا کرتی تھی۔ یہ اب اندرون 5 فیصد ہوچکی ہے۔
ان حالات میں کہا جاسکتا ہے کہ مودی۔ شاہ حکومت غیرذمہ دارانہ انداز میں چلائی جارہی ہے۔ ان کے مقاصد کچھ اور معلوم ہوتے ہیں اور وہ زبانی دعوے کچھ اور ہی کررہے ہیں۔ پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت حاصل کرنے کیلئے جو امن و سلامتی کا ماحول چاہئے، اس میں تو خود حکومت رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اس میں بیرونی راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کیسے ہوگی۔ خود ہمارے سرمایہ کار بے خوف ہوکر سرمایہ کیسے مشغول کریں گے۔ دہلی میں تین دنوں میں جو کچھ ہوا، اس سے صاف نظر آیا کہ مرکزی حکومت بالواسطہ طور پر فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کررہی ہے۔ جنھوں نے بھی اشتعال انگیزی کی، وہ سب برسراقتدار بی جے پی کے قائدین ہیں۔ اس کے باوجود نہ پارٹی اور نہ ہی حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے آمادہ ہے۔ یہ باتیں واضح کرتی ہیں کہ ملک کی معاشی ترقی نہیں چاہتی بلکہ وہ کچھ اور ہی حاصل کرنا چاہتی ہے جس کا حکومت سی اے اے، این پی آر، این آر سی پر ہٹ دھرمی کے ذریعے اظہار کررہی ہے۔
٭٭٭