چیف منسٹر کے سی آر نے جمعرات کو تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآبادکے علاقہ ٹولی چوکی میں باور کرایا جارہا ہے کہ اچانک ایک ضعیف شخص کو دیکھ کر اپنی کاروں کا قافلہ روک دیا۔ بتایا گیا کہ وہ شخص معذور ہے اور اس کا نام محمد سلیم ہے۔ وہ اپنے ہاتھ میں فریاد لئے کھڑا تھا کہ چیف منسٹر کی نظر پڑے اور وہ اس کی مدد کریں۔ اب اتفاق کہئے یا واقعہ کے ویڈیو کلپس کے مدنظر شعبدہ بازی ، چیف منسٹر اپنی کار سے اتر کر محمد سلیم کے پاس گئے اور اس کا حال معلوم کیا۔
محمد سلیم نے بتایا کہ وہ ایک دہا قبل تک ڈرائیور تھا لیکن ایک حادثے نے اسے معذور کردیا۔ وہ گھر کے آسرے سے عاری ہے اور اس کا بیٹا بھی بیمار ہے۔ چیف منسٹر نے برسرموقع ڈسٹرکٹ کلکٹر کو ہدایت دی کہ حکومت کی جانب سے معذورین کو دیا جانے والا پنشن محمد سلیم کے نام جاری کیا جائے اور اسے معہ فیملی رہائش کیلئے سرکاری اسکیم کے تحت تعمیر ڈبل بیڈ روم بھی الاٹ کیا جائے۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ صرف ایک مسلم کیلئے کے سی آر نے ایسی انسانیت نوازی اور فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ تلنگانہ کے ہی مسلمانوں کیلئے 12 فیصد ریزرویشن فراہم کرنے کا انھوں نے کبھی ازخود وعدہ کیا تھا جو ہنوز پورا نہیں ہوا ہے۔ سی اے اے، این پی آر، این آر سی کیخلاف ریاستی مسلمان غیرمعمولی جدوجہد کررہے ہیں مگر کے سی آر کچھوے کی چال چل رہے ہیں؟
بارہ فیصد ریزرویشن اور این پی آر مسئلہ پر مشکوک طرزعمل اختیار کرنے والے چیف منسٹر کا محمد سلیم کیلئے حاتم طائی کا رول منطقی انجام تک نظر میں رکھنا پڑے گا۔ میرا مطلب ہے ”فالو اَپ“۔ چیف منسٹر صاحب نے ’اسپاٹ‘ پر ہی محمد سلیم کیلئے فراخدلانہ احکام جاری کردیئے۔ اب دیکھنا ہے آیا وہ حقیقت بھی بنتے ہیں یا نہیں؟ میں یہ سوال اس لئے اٹھا رہا ہوں کیونکہ کے سی آر نے مسلمانوں سے کئے گئے وعدے یا مسلمانوں کے مفادات کے خلاف قوانین کی مخالفت میں ہمیشہ مشکوک موقف اختیار کیا ہے۔ کیرالا نے این پی آر کے معاملے میں دو ٹوک فیصلہ کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو سرکاری مراسلت کے ذریعے آگاہ کردیا کہ وہ این پی آر عمل میں تعاون کرنے سے قاصر ہیں۔ مغربی بنگال نے بھی این پی آر کیخلاف ٹھوس موقف اختیار کیا۔ تاہم، تلنگانہ حکومت کا موقف ”دیوار پہ کی بلی“ کی مانند رہا ہے۔
دیگر نکتہ یہ ہے کہ تلنگانہ کی 3.5 سے زیادہ کی آبادی میں جانے کتنے محمد سلیم اور بھکشا پتی کشٹیا ہوں گے۔ صرف محمد سلیم یکایک معذورین کے پنشن اور ڈبل بیڈ روم کے مستحق کیونکر ہوسکتے ہیں؟ تلنگانہ کے دیگر لاکھوں غریبوں، معذورین، بے یارومددگار افراد کا کون پرسان حال ہوگا؟ یہ تو ہوا غرباءو معذورین کا معاملہ، پڑھے لکھے بیروزگاروں کو چیف منسٹر کی توجہ حاصل کرنے کون سے نکڑ پر ٹہرنا پڑے گا؟ برسہا برس سے کنٹراکٹ اساس پر لٹکا کر رکھے گئے ملازمین کی دادرسی کیلئے چیف منسٹر کا قافلہ کہاں رکے گا؟
بہرحال، مجھے اندیشہ ہے کہ محمد سلیم کا معاملہ شعبدہ بازی ہوسکتی ہے۔ خدا کرے، میرا خیال غلط ثابت ہو، اور دیگر محتاجوں کو بھی تلنگانہ حکومت کی مدد حاصل ہو۔ تاہم، دیکھنا پڑے گا کہ محمد سلیم کو جمعرات کی چیف منسٹر کی ہدایتوں کے مطابق ہمدردانہ بنیادوں پر فوائد حاصل ہوتے ہیں یا نہیں؟ یہ معاملہ چند ہفتوں میں واضح ہوجائے گا۔اتفاق سے یہ واقعہ اسی روز پیش آیا جب تلنگانہ حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ ریاست میں این پی آر پر فی الحال عمل نہیں ہوگا۔ ”فی الحال“ اس جملے کا بڑا خطرناک حصہ ہے۔ این پی آر کا عمل یکم اپریل سے چھ ماہ تک جاری رہنے والا ہے۔ ہوسکتا ہے تلنگانہ کیلئے موجودہ طور پر مسلمانوں کی مخالفت مول لینا جوکھم معلوم ہورہا ہے۔ 30 ستمبر تک کسی وقت حکومت یکایک این پی آر پر عمل نافذ کرسکتی ہے۔ تب کیا ہوگا؟ کیونکہ این پی آر دراصل این آر سی کا ابتدائی حصہ ہے اور این آر سی سراسر ظالمانہ عمل ہے۔
٭٭٭