سبکدوش چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی چار ماہ میں راجیہ سبھا کے نامزد ایم پی بن گئے ہیں۔ کبھی بہت حیرانی ہوتی ہے کہ مودی حکومت کس قدر ڈِھٹائی سے کام کررہی ہے۔ سیاسی اخلاق تو پہلے ہی ہوا ہوگئے، اسے کسی کی کوئی پرواہ معلوم نہیںہوتی۔ اس سے زیادہ تعجب کی بات ہے کہ ملک کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ اور بڑے عہدوں پر فائز اشخاص کی اکثریت بھی اسی روش پر چل پڑی ہے۔ گزشتہ سال نومبر کی بات ہے، ایودھیا کے بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی اراضی ملکیت مقدمہ میں یہی گوگوئی زیرقیادت پانچ رکنی سپریم کورٹ بنچ نے ’عجیب‘ فیصلہ سناتے ہوئے تسلیم کیا کہ بابری مسجد کو ڈھانا مجرمانہ فعل ہے؛ ساتھ ہی منہدمہ ڈھانچہ سے متعلق تمام اراضی رام مندر کی تعمیر کیلئے ہندو فریق کے حوالے کردی، نیز مسلم فریق کو ایودھیا ٹاون میں ہی علحدہ پانچ ایکڑ اراضی فراہم کرنے کی حکومت کو ہدایت دی۔

 

مودی حکومت کی سفارش پر صدرجمہوریہ رامناتھ کووند نے اپنے دستوری اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے گوگوئی کو راجیہ سبھا ایم پی نامزد کردیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی رکنیت 250 تک محدود ہے۔ موجودہ طور پر 245 راجیہ سبھا ممبرز ہیں۔ 233 ارکان کا انتخاب مقننہ جات کے منتخب نمائندے کرتے ہیں اور 12 کو صدرجمہوریہ مختلف شعبہ جات حیات جیسے آرٹ، لٹریچر، سائنس، سوشل سرویسیس وغیرہ میں ان کے کارہائے نمایاں پر نامزد کرتے ہیں۔گوگوئی کو سپریم کورٹ کے نامور ایڈوکیٹ کے ٹی ایس تلسی کی سبکدوشی پر مخلوعہ نشست کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔

 

دو سال قبل دیپک مشرا چیف جسٹس آف انڈیا تھے۔ تب چار سینئر سپریم کورٹ ججوں نے جسٹس مشرا کی قیادت میں عدالت کے داخلی کام کاج پر کئی سوال اٹھائے اور شاید پہلی مرتبہ پریس کانفرنس منعقد کرتے ہوئے قوم کو عدالت عظمیٰ کی داخلی صورتحال سے واقف کرایا تھا۔ ان ججوں میں پیش پیش رنجن گوگوئی تھے۔ دیگر ججس جسٹس کورین جوزف، جسٹس چیلمیشور اور جسٹس مدن لوکور تھے۔ چند ماہ بعد خود گوگوئی سی جے آئی بن گئے۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں جو مسائل اٹھائے تھے، ان کی سی جے آئی میعاد میں سب جوں کے توں رہے۔ اُلٹا سی جے آئی گوگوئی ایک وومن اسٹاف ممبر سے دست درازی کے معاملے میں پھنس گئے تھے۔ یہ معاملہ بھی عجیب رہا۔ جس پر الزام تھا، اسی نے سنوائی کی۔ پھر وہ سماعت سے علحدہ ہوگئے اور انھیں ’کلین چٹ‘ ملنے میں زیادہ دن نہیں لگے۔

 

مودی اور ان کی حکومت پر اس وقت کے صدر کانگریس راہول گاندھی نے رفائل لڑاکا جٹ طیارہ معاملت میں بڑے پیمانے پر اُلٹ پھیر کے الزامات عائد کئے تھے۔ بی جے پی والوں نے معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچایا۔ گوگوئی کی سربراہی والی بنچ نے حکومت کو ’کلین چٹ‘ دے دی اور راہول کو ”چوکیدار چور ہے“کے نعرے پر غیرمشروط معذرت خواہی کرنا پڑا۔ ایک طرف عقیدہ کا معاملہ آتا ہے تو بابری مسجد کی اراضی ہندو فریق کے اس اعتقاد پر ان کے حوالے کردی گئی کہ وہاں لارڈ رام کی جائے پیدائش ہے۔ دوسری طرف کیرالا کے سبری ملا مندر میں بھی اعتقاد اور دیرینہ رواج کا معاملہ ہے کہ وہاں مخصوص عمر تک لڑکیوں اور عورتوں کا داخلہ منع ہے۔ تاہم، وہاں بی جے پی کی خواہش کچھ اور ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ کی گوگوئی بنچ نے سبری ملا مندر میں عورتوں کے داخلے کی اجازت دے دی۔

 

شاید یہ ریٹائرڈ سی جے آئی کے کارہائے نمایاں ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ مودی۔ شاہ حکومت میں بھارت تیزی سے بدل رہا ہے۔ اس لئے گوگوئی کا راجیہ سبھا ممبر بننا ’بجا‘ ہے۔ خود گوگوئی کی معیاری وضاحت پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ اور مقننہ میں بہتر اور مضبوط تال میل کیلئے انھوں نے راجیہ سبھا کیلئے نامزدگی کو قبول کیا ہے۔ مبارک ہو، گوگوئی صاحب۔
٭٭٭

Find out more: