ہم کالے ہیں تو کیا ہوا، دل والے ہیں .... یہ 1965 کی بالی ووڈ فلم ’گمنام‘ کا سوپرہٹ گیت ہے، جسے محمد رفیع نے آواز دی اور مشہور کامیڈین محمود (محمود علی) اور ہیلن پر فلمایا گیا۔ اسی سے متاثر ہوکر 1982 میں فلم ’دیش پریمی‘ میں گیت ”خاتون کی خدمت میں سلام اَپُن کا....“ شامل کیا گیا جسے کشورکمار نے آواز دی اور امیتابھ بچن و ہیمامالینی پر فلمایا گیا۔ 17 سال کے فرق کی دو فلموں کے دونوں ہٹ گیتوں کا یہاں حوالہ دینے کا میرا مقصد ایک مشترک چیز کی نشان دہی کرنا ہے۔ محمود نے عام حیدرآبادی طرز کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا، اور اس کی لگ بھگ نقل کو سوپر اسٹار نے اپنے مخصوص اسٹائل میں ڈھالا۔ اس دوسرے گیت میں لفظ ’حیدرآبادی‘ کا استعمال بھی کیا گیا۔ 

مجھے حیدرآبادی ہونے کے ناطے یہ عجیب لگتا ہے کہ بالی ووڈ ہو یا دیگر علاقوں کی فلمی صنعتیں، حیدرآبادی کردار کو زیادہ تر مسخرے طرز میں ہی کیوں پیش کیا جاتا ہے۔ کیا حیدرآبادی کی پہچان صرف کامیڈی ہے؟ کیا وہ زندگی کے مختلف شعبوں کے سنجیدہ کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں؟ کیا حیدرآبادیوں نے انجینئرنگ، ڈاکٹری، سیول سرویس، ایجوکیشن، انفرمیشن ٹکنالوجی، اسپورٹس، گلوکاری وغیرہ میں کارہائے نمایاں انجام نہیں دیئے؟ کیا ملک کی ترقی میں دارالحکومت آندھراپردیش و تلنگانہ کی حیثیت سے حیدرآباد نے اپنا رول ادا نہیں کیا ہے؟ فلم کا بڑا اسکرین ہو یا چھوٹا پردہ جہاں کہیں حیدرآبادی کردار دیکھنے میں آیا، اس کا زیادہ تر مسخرا رول ہی دکھائی دیا ہے۔


ملک میں سب سے مشہور بالی ووڈ یا بمبئی کی فلمی صنعت کے علاوہ بنگالی، مراٹھی، بھوجپوری، ٹامل، ملیالم، کنڑ، تلگو فلموں کی علاقائی صنعتیں کافی عرصے سے کام کررہی ہیں اور اپنی اپنی جگہ اتنی مقبول اور کامیاب ہیں کہ وقفے وقفے سے بالی ووڈ کی فلمیں سوپر ہٹ علاقائی فلموں کے ری میک کے طور پر بنائی جاتی ہیں، جن میں جتندر اور سلمان خان کی کئی فلمیں شامل ہیں۔


متحدہ آندھرا پردیش اور اس کے بعد تلنگانہ کے اعتبار سے تلگو فلمیں ریاستی سرکاری زبان کی نمائندگی کرتی ہیں، لیکن دارالحکومت حیدرآباد میں اردو داں طبقہ کی اپنی مخصوص شناخت ہے۔ چنانچہ خاص اس طبقے کو ملحوظ رکھتے ہوئے حیدرآبادی فلموں کا آغاز 1998 میں ناگیش کوکنور کی فلم ’حیدرآباد بلوز“ سے ہوا۔ اس فلم نے جیسے تیسے منافع کمایا لیکن حیدرآبادی فلمسازی پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ 2005 میں نوجوان کنٹا نکھل نے مزاحیہ موضوع پر ’دی انگریز‘ بنائی۔ اس فلم نے زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس فلم کے ساتھ تین کردار سلیم پھیکو (مست علی)، جہانگیر (عزیز ناصر)، سریواستو (اسماعیل بھائی) راتوں رات عوام کے پسندیدہ بن گئے۔ پھر تو حیدرآباد میں فلمسازی کا طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔


حیدرآبادی انڈسٹری نے اب تک تقریباً 100 فلمیں بنائی ہیں لیکن ایسا کہا نہیں جاسکتا کہ ان سب فلموں نے نفع دلانے والا بزنس کیا بلکہ کئی فلموں سے تو بجٹ کی رقم بھی وصول نہیں ہوپائی اور پروڈیوسرز دیوالیہ ہوگئے۔ تھیٹریکل ریلیز کے اعتبار سے ملک میں 23 ٹیریٹریز ہیں لیکن حیدرآبادی فلمیں صرف حیدرآباد کی چند تھیٹرز کے علاوہ اضلاع نظام آباد، محبوب نگر میں ریلیز ہوپاتی ہیں۔ چند فلموں کو پڑوسی ریاست کرناٹک کے بعض شہروں میں ریلیز کیا گیا۔ بزنس کے اعتبار سے حیدرآبادی فلموں کی ناکامی کی بڑی وجہ صفر مارکیٹنگ ہے۔ کوئی خریدار ڈسٹری بیوٹر نہیں مل پاتا ہے۔ ان فلموں کو ڈسٹری بیوٹرز سے تھیٹرز کرایہ پر لے کر ریلیز کرنا پڑتا ہے۔


ان فلموں کی ناکامی کا ایک اور سبب یکساں طرز کے لوکیشن پر فلمبندی، بار بار دہرائے گئے مکالمے اور مناظر ہیں۔ یوں تو حیدرآباد میں کئی موضوعات اور کہانیاں ہیں جنھیں تلگو فلسماز اب بھی استعمال کرتے ہیں لیکن حیدرآبادی فلموں میں وہی پرانے شہر کا ماحول اور بات چیت پیش کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت، حیدرآبادی فلمسازوں نے کبھی اپنی فلم کے لیے کسی تجربہ کار اسکرپٹ رائٹر، مکالمہ نگار، ٹکنیشن، ایڈیٹر، گیت کار، موسیقار کی خدمات حاصل کرنے کی اہمیت نہیں سمجھی۔ حالیہ چند برسوں میں گلو دادا (عدنان ساجد) مشہور ہوئے مگر کامیڈی ان پر بھی بڑی حد تک غالب ہے۔ کے بی جانی (خیرالدین بیگ جانی) نے اسٹانڈاَپ کامیڈی، کمپیئرنگ کے ساتھ ساتھ حیدرآبادی فلموں میں بھی چند رول ادا کئے۔ تاہم، حیدرآبادی فلموں کے شروع سے اب تک بس کامیڈی ہی نمایاں عنصر نظر آتا ہے۔


ایک ہی طرز کی کامیڈی سے لوگ اکتا چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا، ببن خان کے ’ادرک کے پنجے‘ اور حامد کمال و سبحانی کے ’دیڑھ متوالے‘ ہنسا ہنسا کر حیدرآبادیوں کی ہفتے بھر کی تھکن اتار دیا کرتے تھے۔ تاہم، آپ 40 سال بعد بھی اپنے فن میں کوئی یا نیا پن لائے بغیر اسے دہراتے رہیں گے تو نئی نسلیں اسے قبول نہیں کریں گی۔ حیدرآبادی ایکٹر توفیق خان نے بحیثیت پروڈیوسر روایتی رجحان میں تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ انھوں نے ایک تھا سردار، ٹائیگر سلطان میں زبردست ایکشن مناظر پیش کئے اور تلگو ٹکنیشن سے مدد لی۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ’بیٹی بچاو‘ کے موضوع پر بھی فلم بنارہے ہیں۔ جب تک حیدرآبادی فلمساز و ہدایتکار الگ الگ موضوعات پر کام نہیں کریں گے، دیگر علاقائی فلمی صنعتوں کے ماہرین کی خدمات نہیں لیں گے، اپنی فلموں کو وسیع تناظر کو ملحوظ رکھ نہیں بنائیں گے، تب تک حیدرآبادی فلمی صنعت کا پھلنا پھولنا ممکن نہیں ہے۔


Find out more: