زیرنظر عنوان امیتابھ بچن کی فلمی زندگی کے ابتدائی پانچ سال کی نسبتاً غیرمعروف فلم کے سوپر ہٹ نغمہ کے مطلع کا دوسرا مصرعہ ہے۔ پہلے مصرعہ کے ساتھ مطلع یوں ہے : ”آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے، زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں“۔ سن عیسوی 1974 کی فلم ”مجبور“ اور اس کا یہ نغمہ دونوں میرے پسندیدہ و بامعنی گیتوں میں سے ہیں۔ فلم بین اکثر 1960 کی ”مغل اعظم“ اور 1975 کی ”شعلے“ کی بات کرتے ہیں کہ ان میں تمام کرداروں نے غضب کی اداکاری کی ہے اور ان فلموں میں شاید ہی کوئی فاش غلطی دیکھی جاسکتی ہے، حالانکہ فلم کچھ حقیقت اور کچھ قیاس پر مبنی تفریحی پیاکیج ہوتی ہے جس کے ذریعے فلم بینوں اور سماج کو تعمیری پیام دیا جائے تو سونے پہ سہاگہ ہوجائے۔

 

میرا دعویٰ ہے کہ امیتابھ بچن کی ’دیوار‘ اور ’شعلے‘ جیسی فلموں سے قبل اور ’آنند‘ ، ’زنجیر‘ اور ’ابھیمان‘ جیسی ہٹ فلموں کے بعد آئی ’مجبور‘ تمام کرداروں کی عمدہ اداکاری اور فاش غلطی سے عاری ہونے کے معاملے میں بالی ووڈ کی چند فلموں میں شمار کی جاسکتی ہے۔ صاف ستھری فلم ’مجبور‘ کے پروڈیوسر پریم جی کیلئے سلیم ۔ جاوید کی لکھی کہانی کی ہدایت روی ٹنڈن (روینہ ٹنڈن کے والد) نے دی۔ گیت کار آنند بخشی کے نغموں کو لکشمی کانت پیارے لال نے موسیقی ریز بنایا۔ امیتابھ کے ساتھ پروین بابی نے مرکزی کردار نبھایا۔ رحمن، پران، ستین کپو، مدن پوری، افتخار، میک موہن، سلوچنا لاٹکر، فریدہ جلال و دیگر نے ضمنی کردار نبھائے۔ تمام نے مل کر عمدہ اداکاری کی ہے۔

 

’مجبور‘ کی کہانی کچھ اس طرح ہے۔ روی کھنہ (امیتابھ بچن) اپنی بیوہ ماں، معذور بہن (فریدہ جلال) اور چھوٹے بھائی کے ہنسی خوشی رہ رہا ہے۔ وہ ٹرمینل برین ٹیومر سے دوچار ہوجاتا ہے اور وہ ڈاکٹروں کے مطابق زیادہ سے زیادہ مزید 6 ماہ زندہ رہ سکتا ہے۔ اپنے بعد اپنی فیملی کیلئے گزربسر کا انتظام کرنے کی خاطر وہ ایک قتل کی ذمہ داری قبول کرلیتا ہے جو اُس نے کیا نہیں مگر وہ انعامی رقم 5,00,000 روپئے پانا چاہتا ہے۔ اسے مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ جیل میں اسے بیماری کا اٹیک ہوتا ہے اور جیل حکام اسے ہاسپٹل پہنچاتے ہیں جہاں اُس کاآپریشن کامیاب ہوجاتا ہے۔ اب وہ اغوا، تاوان کی رقم طلب کرنے اور قتل کا اقبالی مجرم ہے، جس میں وہ اپنی مرضی سے پھنسا ہے۔ خود کو سزائے موت سے بچانے کیلئے وہ ہاسپٹل سے فرار ہو کر حقیقی قاتل کو تلاش کرتا ہے۔ اسے ایک ہمدرد چور مائیکل ڈی سوزا (پران) سے مدد ملتی ہے۔ کافی ڈرامائی تبدیلیوں کے بعد حقیقی مجرم کی شناخت کا پتہ چلتا ہے۔ تب روی کھنہ دوبارہ آزاد شخص بنتا ہے۔

 

فلم ’مجبور‘ اس دور کی ہے جب امیتابھ بچن کا عروج بس شروع ہوا تھا۔ شاید اس لئے یہ فلم ہٹ ہونے کے باوجود آج شائقین فلم کی ذہن سے اوجھل ہے۔ اس میں فلم بینوں کیلئے پیام ہے کہ آدمی جب مجبور ہوتا ہے تو اپنی فیملی کیلئے مرنے تیار ہوجاتا ہے اور اگر مجبور نہ ہو تو اپنے اور اپنی فیملی کو نقصان سے بچانے کیلئے ہر قسم کی جدوجہد کرتا ہے۔ میں جب بھی فلموں کا تذکرہ کرتا ہوں، زور دیتا ہوں کہ فلم چاہے کسی دور کی ہو، اُس دور کے اعتبار سے فلم بینوں کیلئے کچھ تعمیری پیام ضرور شامل ہونا چاہئے۔ ورنہ فلم محض شور شرابہ، صرف ناچ گانے اور قیاسی ایکشن کا بے مقصد پیاکیج بن جائے گی جن میں بس چند خوبصورت چہرے دکھائی دیں گے اور نوجوان نسل کو بگاڑنے والی باتیں ملیں گی۔

 

آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے۔۔۔ یہ نغمہ مجھے حقیقی زندگی سے بہت قریب معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے مجھے بہت پسند ہے۔ اس میں معنویت ہے، حقیقت ہے، بول میں خوبصورتی ہے۔ اس گیت کے مکمل بول آپ کیلئے پیش کررہا ہوں:
کبھی سوچتا ہوں
کہ میں کچھ رہوں
کبھی سوچتا ہوں
کہ میں چپ رہوں
آدمی جو کہتا ہے
آدمی جو سنتا ہے
زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں
آدمی جو دیتا ہے
آدمی جو لیتا ہے
زندگی بھر وہ دعائیں پیچھا کرتی ہیں
کوئی بھی ہو ہر خواب تو سچا نہیں ہوتا
بہت زیادہ پیار بھی اچھا نہیں ہوتا
کبھی دامن چھڑانا ہو تو مشکل ہو
پیار کے رشتے ٹوٹے تو
پیار کے رستے چھوٹے تو
راستے میں پھر وفائیں پیچھا کرتی ہیں
کبھی کبھی من دھوپ کے کارن ترستا ہے
کبھی کبھی پھر جھوم کے ساون برستا ہے
پلک جھپکے یہاں موسم بدل جائے
پیاس کبھی مٹتی نہیں ایک بوند بھی ملتی نہیں
اور کبھی رم جھم گھٹائیں پیچھا کرتی ہیں
٭٭٭

Find out more: