میرا ہمیشہ یہ ماننا رہا کہ بدلتے دور کی ایجادات اور ان سے مفید استفادے میں کوئی برائی نہیں۔ کوئی مذہب یا کوئی کلچر اس میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ مگر اس آزادی کو شائستگی سے مربوط رکھنا ضروری ہے اور دیکھنا ہوگا کہ کیا ہمیں، ہماری اولاد کو، ہماری خواتین کو اور ہمارے بوڑھوں کو نئی ایجادات سے واقعی کچھ فائدہ ہورہا ہے؟ ٹیلی ویژن یعنی ٹی وی گزشتہ صدی کے تیسرے دہے کی غیرمعمولی ایجاد ہے اور دنیا کا پہلا الیکٹرانک ٹیلی ویژن 21 سالہ فیلو ٹیلر فرانسورتھ نے 1927 میں بنایا تھا۔ اس نوجوان امریکی موجد (مدت حیات 1906 تا 1971) کی ذہانت اور انتھک جدوجہد قابل رشک ہے کہ اس کے مکان میں اس وقت تک بھی برقی (الیکٹریسٹی) دستیاب نہیں تھی جب وہ 14 سال کا ہوچکا تھا۔ مجھے یقین ہے فرانسورتھ نے ٹی وی کی ایجاد بے ہودہ استعمالات کیلئے ہرگز نہیں کی تھی، جو آج کل ہندوستان بلکہ برصغیر میں دیکھنے میں آرہا ہے۔
اس تحریر میں بطور خاص جاریہ ریالٹی ٹی وی شو ”بگ باس 13“ کا ذکر کررہا ہوں۔ یہ شو پہلی مرتبہ 2006 میں پیش کیا گیا۔ مشہور ایکٹر سلمان خان اس کے ہوسٹ ہیں۔ چیانل ’کلرس‘ پر جاری یہ ریالٹی ٹی وی شو دراصل یورپی ٹی وی پروگرام ”بگ برادر“ کا ہندوستانی چربہ ہے۔ یورپ اور ایشیا بالخصوص برصغیر ہند کی تہذیب میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ میں نے غور کیا ہے کہ اتنے برسوں میں ’بگ باس‘ شو بتدریج واہیات ہوتا گیا ہے۔ اب تو اسے صرف شوبز کی پرسنالٹیز یا کوئی دیگر شعبہ کی نامور شخصیتوں تک محدود کردیا گیا ہے۔ بگ باس شو کی مختصر تشریح کرنا چاہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ تیز رفتار زندگی کا ریالٹی شو ہے جس میں ”بگ باس کے گھر“ کے مکین یعنی شرکائے شو کو ایک دوسرے کے ساتھ اچھا تال میل استوار کرکے مختلف نوعیت کے چیلنجس میں مسابقت کرتے ہوئے چوتھے ہفتے میں اہم مرحلے کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ پھر دوسرے مرحلے میں داخلے پر جو بھی آخر تک شو میں برقرار رہیں، ان کو ٹی وی آڈیئنس ووٹنگ کی بنیاد پر شو کا ونر قرار دیا جاتا ہے۔
تشریح و تحریر سے بگ باس اچھا مسابقتی شو ظاہر ہوتا ہے، لیکن حقیقت برعکس ہے۔ میں کبھی اس شو کا شائق نہیں رہا مگر صحافتی ذمہ داری نبھانے کیلئے کم از کم جھلکیاں دیکھنا پڑتا ہے۔ میں نے 13 برسوں میں مختلف زاویوں سے سلمان خان کی میزبانی والے شو کا جائزہ لیا۔ میں نے دیکھا کہ اس شو میں لازمی طور پر ’میل‘ اور ’فیمیل‘ کنٹسٹنٹ ہوتے ہیں جن کی اکثریت خالق انسان کی خوبصورت تخلیق کا مظہر ہوتی ہے۔ بگ باس 90 فی صد سے زیادہ شوبز کی شادی شدہ اور غیرشادی شدہ پرسنالٹیز کو مسابقت کا موقع دیتا ہے۔ تاہم، یہ ’خوبصورت چہرے‘ مل کر ’بدصورت شو‘ کے موجب بن رہے ہیں۔ کئی قسم کی سماجی برائیاں اس شو میں نظر آتی ہیں۔ غیبت (بیک بائٹنگ)، ایک دوسرے کے خلاف سازش رچانا، حریفوں کو بددیانتی سے ہرانے کی کوشش کرنا، بات چیت میں ناشائستگی، لباس میں عریانیت، گھٹیا رومانس .... یہ سب کچھ بگ باس میں ہورہا ہے اور سلمان خان شو کا ہفتہ وار جائزہ لینے کیلئے بڑے ’فخر‘ سے چھوٹے اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں۔
بگ باس شو سے چھ سال قبل 2000 میں سوپر اسٹار امیتابھ بچن کی میزبانی میں ”کون بنے گا کروڑپتی“ (کے بی سی) کا مسابقتی شو شروع ہوا تھا جو کچھ وقفوں کے ساتھ تاحال جاری ہے۔ میزبان امیتابھ بچن کنٹسٹنٹ سے سلسلہ وار سوالات پوچھتے ہیں جو جنرل نالج اور حالات حاضرہ پر مبنی ہوتے ہیں۔ کنٹسٹنٹ کو چار متبادل جوابات دیئے جاتے ہیں جن میں واحد صحیح جواب بتانا ہوتا ہے۔ کے بی سی امریکی ٹی وی شو ”ہو وانٹس ٹو بی ملینیئر“ کا انڈین ورژن ہے۔ مغربی شو کا چربہ ہونے کے باوجود کے بی سی کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں 18 سال سے لے کر بڑی عمر تک، غریب سے لے کر متوسط طبقہ تک سب کو خالص علم کی بنیاد پر کیاش پرائز جیتنے اور اپنی زندگی میں تعمیری بدلاو لانے کا موقع ملتا ہے۔ ایک اور خوبی میزبان امیتابھ بچن کی شائستہ میزبانی ہے۔ خود وہ بڑی جدوجہد سے اپنے کریئر میں آگے بڑھے ہیں۔ وہ شمالی ہند کے تعلیم یافتہ اور مشرقی تہذیب پر عمل پیرا گھرانے کے سپوت ہیں۔ صرف میں نے نہیں بلکہ سارے ہندوستان نے دیکھا ہے کہ امیتابھ بچن کے بی سی میں مسابقت کرنے والوں کو جو ’ہاٹ سیٹ‘ تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں، کچھ نہ کچھ مفید بات بتاتے ہیں اور اپنے تجربے کے مختلف پہلووں سے روشناس کراتے ہیں۔
میرے نقطہ نظر کے اعتبار سے ’بگ باس‘ اور ’کے بی سی‘ کا تقابل کرتے ہوئے چند اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔ انٹرنٹ مووی ڈیٹابیس (آئی ایم ڈی بی) میں بگ باس کا اسکور 10 میں سے 4.6 اور کے بی سی کا 8.4 ہے۔ سرچ انجن ’گوگل‘ کے یوزرس میں 77 فی صد ’بگ باس‘ شو کو پسند کرتے ہیں جبکہ سونی چیانل پر جاری کے بی سی کا تناسب 93 فی صد ہے۔ ناظرین مختلف شوز کو ریٹنگ بھی دیتے ہیں۔ بگ باس کی ریٹنگ 5 میں سے 3.4 اور کے بی سی کی ریٹنگ 4.3 ہے۔
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ ٹی وی ہو، موبائل ہو، اسمارٹ فون، انٹرنٹ ہو یا اور کوئی جدید ایجاد یہ تلخ حقیقت ہے کہ ایشیا بڑی حد تک صرف استفادہ کنندہ رہتا ہے جبکہ ایجادات مغربی ملکوں میں ہوتی ہیں۔ موجدین کے مقاصد شاذونادر منفی اور مضرت رساں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ایجادات جب برصغیر اور ہندوستان میں پہنچائی جاتی ہیں تو یہاں کے کروڑوں افراد ان کے غلط استعمالات میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ جس وقت یہ رجحان بدلے گا، ہندوستان میں بھی یقینا قابل رشک موجدین پیدا ہوں گے۔
٭٭٭