کانگریس کو اب راہول گاندھی کی پدیاترا کی ضرورت
راہول گاندھی نے لوک سبھا انتخابات 2019ءمیں کانگریس کی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے نتائج کے فوری بعد صدر پارٹی کی حیثیت سے اپنا استعفا پارٹی کے اعلیٰ فیصلہ ساز ادارہ کانگریس ورکنگ کمیٹی (سی ڈبلیو سی) کو پیش کردیا تھا۔ کمیٹی نے جس میں یونائیٹیڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) چیئرپرسن سونیا گاندھی اور سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ شامل ہیں، راہول کا استعفا مسترد کرتے ہوئے اُن سے صدر پارٹی کی حیثیت سے کام کرتے رہنے کی خواہش کی تھی۔ تاہم، راہول مطمئن نہ ہوئے۔ وہ مسلسل کہتے رہے کہ پارٹی میں احتساب ضروری ہے اور اس سے کوئی بھی نہیں بچنا چاہئے۔ چنانچہ تقریباً ایک ماہ بعد راہول گاندھی نے چہارشنبہ کو باقاعدہ پریس کانفرنس منعقد کرتے ہوئے صدر کانگریس کی حیثیت سے اپنے استعفے کا کھلے عام اعلان کردیا!سی ڈبلیو سی کے پاس اب کوئی چارہ نہ رہا۔ اس لئے کمیٹی نے راہول گاندھی کا پارٹی صدارت سے استعفا قبول کرتے ہوئے انھیں نئے صدر کے انتخاب تک اپنے عہدہ پر برقرار رہنے کے لیے کہا ہے۔ دیگر اطلاعات کے مطابق سینئر لیڈر موتی لال ووہرہ کو کارگزار صدر پارٹی نامزد کیا گیا ہے۔ بہرحال، یہ مسلمہ ہے کہ راہول گاندھی اب صدر کانگریس نہیں رہے۔ انھوں نے چار صفحات پر مشتمل اپنے مکتوب استعفا میں کئی نکات اٹھائے ہیں۔ انھوں نے کہیں جذباتی انداز بھی اپنایا اور کہیں جارحانہ تیور بھی دکھائے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی پارٹی احتساب اور جوابدہی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔ راہول گاندھی کو جنرل الیکشن میں شکست کے بعد سے ہی پارٹی کے بعض داخلی گوشوں سے شکایت رہی ہے۔ انھوں نے راست طور پر اور بالواسطہ کہا ہے کہ ملک کی لگ بھگ تمام ریاستوں میں بعض سینئر قائدین نے پارٹی کے مفاد پر ذاتی فائدے کو ترجیح دی۔ بعض قائدین نے اپنی محنت رشتے دار امیدواروں کی کامیابی تک محدود رکھی۔ بعض نے انتخابی عمل میں تساہل اور غفلت سے کام لیا۔ ان سب باتوں کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑا، جیسا کہ اسے لوک سبھا کی محض 52 نشستیں مل سکیں جو اپوزیشن پارٹی کا باقاعدہ موقف حاصل کرنے کے لیے درکار تعداد سے 2 کم ہیں۔ اس کے لئے ایوان کی عددی طاقت کا 10% جیتنا ضروری ہوتا ہے۔ 2014ءمیں تو کانگریس اس معاملے میں مزید پیچھے تھی جب اُسے اپنی تاریخ کی اقل ترین عددی طاقت (44) ملی تھی۔راہول گاندھی بہرحال پارٹی کے رکن پارلیمان (لوک سبھا) ہیں، اُن کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جو اپنے جد اعلیٰ سے کانگریس سے وابستہ ہے اور ہمیشہ عوام میں مقبول رہا۔ اُن کے نانا جواہر لعل نہرو سے دیکھیں تو نہرو۔ گاندھی خاندان نے ملک کو تین وزرائے اعظم دیئے جنھوں نے مجموعی طور پر تقریباً 40 سال مرکزی اقتدار کی قیادت کی ہے۔ پھر سونیا گاندھی کی سیاسی بصیرت نے نہرو۔ گاندھی فیملی سے ہٹ کر ڈاکٹر منموہن سنگھ کی 10 سالہ وزارت عظمیٰ کو یقینی بنایا۔ اب 2014ءسے نریندر مودی کے عروج نے کانگریس پر بُرا وقت لایا ہے۔ اب کانگریس کو اپنی عظمت رفتہ بحال کرنا ہوتو کچھ نیا کرنا ہوگا اور یہ کام کے لیے راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی سے بہتر کوئی نہیں ہیں۔ پرینکا کو فی الحال اترپردیش میں 2022ءکے اسمبلی انتخابات پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ مہاراشٹرا ایک اور بڑی ریاست ہے جہاں چند ماہ بعد اکٹوبر کے آس پاس اسمبلی چناو ہونے والے ہیں۔ نیا صدر کانگریس راہول کو بحیثیت مقبول پارٹی لیڈر مہاراشٹرا میں انتخابی مہم کی قیادت کی ذمہ داری سونپ سکتا ہے۔ پدیاترا ہمیشہ عوام سے جوڑنے میں موثر ثابت ہوئی ہے۔ ستمبر سے لگ بھگ ایک ماہ راہول پورے مہاراشٹرا میں کانگریس کے لیے پدیاترا کریں تو پارٹی کا دوبارہ بنیادی سطح سے ٹھوس رابطہ ہوسکتا ہے۔