جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں جنتادل (سکیولر) اور کانگریس کی مخلوط حکومت کے لیے کئی دنوں بلکہ ہفتوں سے جاری سیاسی بحران نے ابھی تک متعدد عجیب و غریب موڑ لیے ہیں۔ عوام کو اب حکومت اور اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی حتیٰ کہ ریاستی گورنر وجو بھائی والا (سابق بی جے پی لیڈر) کے یکے بعد دیگر سیاسی داو پیچ دیکھ کر ہنسی آرہی ہے اور یہ معاملہ دیکھنے والوں کے لیے دلچسپ سیاسی تماشہ بنتا جارہا ہے۔
اس پس منظر میں مجھے ریاست کے نام Karnataka (تلفظ : کرناٹکا) کا خیال آیا جسے ہم اُردو میں ’کرناٹک‘ لکھتے ہیں۔ اس ریاست کی سرکاری زبان اول کنڑ ہے اور ریاست کا نام اسی زبان کے دو الفاظ karu اور nadu کو جوڑ کر اخذ کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ’مرتفع زمین‘ ہوتا ہے۔ یہ تحریر چونکہ اُردو زبان میں ہے، اس لیے میں نے ’کرناٹک‘ کو اساس بنایا اور اس کو کر’ناٹک‘ لکھا تو ایسا لگا کہ موجودہ سیاسی صورتحال کی عکاسی ہورہی ہے۔ ایسا معلوم ہورہا ہے کہ وہاں مخلوط حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر ریاستی عوام کے مفاد میں حکمرانی اور تعمیری حزب اختلاف کی ذمہ داری چھوڑ کر ’ناٹک‘ میں پڑگئے ہیں اور مانو ایک دوسرے سے یہی کہہ رہے ہیں کہ کر .... ناٹک!
چودہ ماہ قبل جب کرناٹک اسمبلی کے لیے انتخابات ہوئے تو عوام نے 224 رکنی ایوان کے لیے واضح فیصلہ نہیں دیا۔ اُس وقت کے چیف منسٹر سدارامیا کی زیرقیادت کانگریس کو توقعات کے مطابق دوبارہ حکومت تشکیل دینے کے لیے خاطرخواہ عددی طاقت درکار نہیں ہوئی اور وہ دوسری بڑی پارٹی بن کر اُبھری۔ بی ایس یدی یورپا کی سرکردگی میں اپوزیشن بی جے پی گوکہ سب سے بڑی پارٹی بن گئی لیکن سادہ اکثریت کے حصول سے پیچھے رہ گئی۔ تیسرا موقف سابق وزیراعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا کی پارٹی جے ڈی (ایس) کو ملا اور وہ ریاست میں پھر ایک بار بادشاہ گر بن گئی۔ گورنر وجوبھائی والا نے مابعد چناو اتحاد کا اعلان کرکے راج بھون سے رجوع ہونے والے کانگریس۔جے ڈی ایس مخلوط پر بی جے پی کو ترجیح دیتے ہوئے یدی یورپا کو چیف منسٹر کا حلف دلادیا مگر وہ ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنے تحریک اعتماد پیش کئے بغیر مستعفی ہوگئے۔ تب مخلوط کو تشکیل حکومت کا موقع ملا اور راہول گاندھی کی سرکردگی میں کانگریس قیادت میں جے ڈی ایس کو پوری میعاد کے لیے وزارت اعلیٰ کے عہدہ کی پیشکش کردی۔ اس طرح مخلوط حکومت کی حکمرانی شروع ہوئی ۔ مجھے ایسا لگا کہ سدارامیا کو یوں پوری میعاد کے لیے ایسا سیاسی انتظام کچھ زیادہ پسند نہیں آیا مگر فوری طور پر انھوں نے خاموشی بہتر سمجھی!
تاہم، بی جے پی کی مرکزی قیادت سے لے کر یدی یورپا تک کوئی بھی ذہنی طور پر یہ قبول نہیں کرپایا کہ پوری میعاد کے لیے اقتدار ہاتھ سے جاچکا ہے۔ چنانچہ سیاسی ریشہ دوانیاں شروع ہوگئیں۔ چند ہفتے قبل برسراقتدار پارٹیوں کے 16 ایم ایل ایز (کانگریس 13، جے ڈی ایس 3) نے مبینہ طور پر بی جے پی کی ایماءپر بغاوت کرتے ہوئے بیرون ریاست جاکر اسپیکر رمیش کمار کو استعفے بھیجے پھر شخصی طور پر بھی پیش کئے، جن کو تادم تحریر قبول نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ جیسے ہی استعفے قبول ہوں، چیف منسٹر ایچ ڈی کمارا سوامی کی مخلوط حکومت کا گرجانا یقینی ہے۔ اور دوبارہ یدی یورپا کو اقتدار سنبھالنے کا نادر موقع مل سکتا ہے۔
ابھی گزشتہ ہفتے سے پوری ریاست کرناٹک کا سیاسی ڈرامہ ایوان اسمبلی میں مرکوز ہے۔ اپوزیشن بی جے پی اور گورنر وجو بھائی والا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ چیف منسٹر کی پیش کردہ تحریک اعتماد پر جلد از جلد ووٹنگ ہو اور مخلوط حکومت ختم ہوجائے۔ لیکن تاش کے پتوں کے کھیل والے محاورہ ’نہلے پہ دہلا‘ کے مصداق کانگریس۔ جے ڈی ایس بھی ترکی بہ ترکی سیاسی چالیں چلتے جارہے ہیں۔ باغی لیجسلیٹرز جب سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے تو عدالت نے انھیں اسمبلی کی کارروائی میں حاضری کے لیے مجبور نہ کرنے کی ہدایت کے ساتھ اسپیکر رمیش کمار کو کہا کہ استعفوں پر جلد فیصلہ کریں۔ اس کے جواب میں کانگریس بھی سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی کہ جب آپ باغیوں کو ایوان سے دور رہنے میں مدد کررہے ہیں تو ایک سیاسی پارٹی کے دستوری حق کی خلاف ورزی ہورہی ہے کہ وہ اپنے لیجسلیٹرز کو وہپ کیسے جاری کرے؟ اس طرح حکومت ، اپوزیشن، گورنر، سپریم کورٹ اور باغیوں کے درمیان کشاکش میں عوام پسے جارہے ہیں۔ ابھی تازہ تبدیلی یہ ہے کہ منگل 23 جولائی کو اسپیکر نے بہرصورت تحریک اعتماد پر رائے دہی منعقد کرانے کا عہد کیا ہے۔ دیکھنا ہے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!