مرکزی حکومت نے ملک بھر میں مکمل آبادی کا نیشنل رجسٹر تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آزادی کے زائد از 70 برسوں بعد یکایک بی جے پی حکومت کو سب سے پہلے ریاست آسام میں اس کا تجربہ کرنے کا خیال آیا اور 31 اگست کو وہاں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این آر سی) کی قطعی فہرست جاری کی جانے والی ہے۔ مودی حکومت کی سرپرستی میں چیف منسٹر آسام سرب نند سونوال نے جب یہ اقدام شروع کیا تو بتایا گیا کہ اس کا بنیادی مقصد غیرقانونی تارکین وطن کی نشاندہی کرتے ہوئے انھیں ملک بدر کرنا ہے اور جب تک یہ عمل پورا نہیں ہوجاتا، ان کو حراستی مراکز میں رکھا جائے گا۔
آسام میں گزشتہ سال جب این آر سی کی پہلی فہرست جاری کی گئی تو 40 لاکھ سے زیادہ شہریوں کے نام غائب پائے گئے۔ انھیں کہا گیا کہ وہ کارکرد دستاویزات جیسے آدھار کارڈ، راشن کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ وغیرہ کی مصدقہ نقول داخل کرتے ہوئے اپنا نام این آر سی میں درج کرا سکتے ہیں۔ اسے اتفاق کہئے یا دانستہ اقدام، 40 لاکھ میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جو کئی مہینوں سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے بدحال ہوئے جارہے ہیں۔ ان میں سے اکثر سادہ لوح اور ناخواندہ افراد ہیں جن کو سرکاری دستاویزات کے بارے میں جانکاری نہیں ہے۔
ملک میں آسام تو سرحدی ریاست ہے اور ایسی مزید ریاستیں ہیں جہاں دراندازوں، پناہ گزینوں اور غیرقانونی مقیم افراد کا مسئلہ رہتا ہے۔ لیکن داخلی یا چاروں طرف زمین سے گھری ریاستوں میں این آر سی عمل کی کیا صورتحال ہوگی، جہاں سرحدی ریاستوں سے جیسے شدید مسائل تو نہیں ہوں گے لیکن ناخواندگی کی وجہ سے عوام کے پاس ضروری شناختی دستاویزات کا فقدان ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا مودی حکومت ملک بھر میں لاکھوں کروڑوں افراد کو حراستی مراکز میں ڈالے رکھنا چاہتی ہے، جن کے قیام کی تمام ریاستوں اور مرکزی زیرانتظام علاقوں کو ہدایات جاری کی جاچکی ہیں۔
میری رائے میں مسئلہ دراصل نیک نیتی کا ہے۔ مرکزی ہو کہ ریاستی حکومتیں کوئی بھی اگر غیرقانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائی کریں تو کسی گوشہ اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ تاہم، کسی مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بناتے ہوئے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کا عمل ملک بھر میں پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس سے ان گنت مسائل پیدا ہوں گے۔ عجیب افراتفری کی صورتحال دیکھنے میں آئے گی جو ہندوستانی معیشت کو کئی ٹریلین ڈالر تک نہیں بلکہ بہت پیچھے تک ڈھکیل دے گی۔