آج تاریخی لال قلعہ سے وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت کے 73 ویں یوم آزادی پر قوم سے خطاب کیا۔ وزیراعظم کو گزشتہ پانچ سال سے سنتے آرہے ہیں۔ اُن کے مخصوص انداز سے سبھی واقف ہیں لیکن آج وہ کچھ زیادہ ہی جوش میں نظر آئے۔ ایسا لگا کہ مودی جلدی میں ہیں اور اتنے دعوے اور وعدے کرتے گئے کہ اس دنیا میں یوں کہا اور یوں ہوا والا معاملہ رائج ہے۔ وزیراعظم خود اپنی حکومت کی پیٹھ تھپتھائی کہ مسلم خواتین کو تین طلاق کے خوف سے چھٹکارہ دلایا گیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس میعاد میں انڈیا 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت بن جائے گا، جموں و کشمیر کے عوام کی مدد کرنا مرکزی حکومت کی ذمہ داری بتارہے ہیں، وہ کیاشلیس اکانومی چاہتے ہیں، حکومت کا منصوبہ ہے کہ انفراسٹرکچر کی تعمیر میں 100 لاکھ کروڑ روپئے کا سرمایہ مشغول کیا جائے گا۔
تین طلاق قانون کے سواءسب باتیں سننے میں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ مودی حکومت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ محض بلند بانگ دعوے کردینے اور کسی طرح اقتدار پر برقرار رہنے کو عوام اور قوم کی حقیقی کامیابی سمجھ بیٹھے ہیں۔ بھلا بتائیے، ملک کو کن سنگین مسائل کا سامنا ہے اور وزیراعظم عوام کو خواب دکھا رہے ہیں۔ کون سا بھارتی شہری نہیں چاہے گا کہ ہماری معیشت آنے والے چند برسوں میں 5 کیا 10 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے، لیکن کیا صرف خواہش اور دعوے کرلینے سے یہ نشانہ حاصل ہوجائے گا۔ مہنگائی عروج پر ہے، بے روزگاری گزشتہ زائد از چار دہوں میں سب سے اونچی شرح پر ہے، آٹوموبائل انڈسٹری پریشان حال ہے، صنعتی ورکرس مسلسل نوکریوں سے محروم ہورہے ہیں۔ کیا حالات ہوں گے جو ہمیں 5 ٹریلین ڈالر کی معیشت تک لے جائیں گے۔
سیاسی اتھل پتھل اور پارلیمنٹ میں چالاکی کے ذریعے مسلم پرسنل لا میں مداخلت کو مودی حکومت اپنا بڑا کارنامہ سمجھ رہی ہے۔ ایسا ناقص قانون منظور کرایا گیا ہے جس کے بیجا استعمال، انتقامانہ استعمال کے پورے امکانات و اندیشے ہیں۔ بعض احمق خواتین یا اس کے رشتے دار اس قانون کا غلط استعمال کرسکتے ہیں، پولیس اور دیگر محکمے بھی اس کا بیجا استعمال کرسکتے ہیں۔ تین طلاق کی باضابطہ شکایت کے ساتھ ہی خاطی شوہر کو جیل میں ڈالا جارہا ہے اور متعلقہ گھرانے سے توقع کی جارہی ہے کہ شکایتی خاتون اور اس کے سسرال کے مابین سب کچھ ٹھیک ٹھاک چلے گا، شوہر اپنے بیوی بچوں کو تین سال تک جیل سے گزارہ دیتا رہے گا، اور پھر خلاصی کے بعد پوری فیملی ’ہنسی خوشی‘ زندگی گزارے گی۔ واہ رے، مودی حکومت۔
جموں و کشمیر کا انڈیا یونین سے الحاق خصوصی مراعات، خاص موقف وغیرہ سے مشروط ہوا تھا۔ اب دستور ہند کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے ذریعے مودی حکومت نے پوری وادی کشمیر کو بھارت سے متنفر کردیا ہے اور باتیں ایسی کی جارہی ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ 5 اگست کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے کشمیر کے حالات دگرگوں ہیں، عجب غیریقینی کیفیت کا ماحول ہے، مگر مرکزی حکومت اور اس کے نمائندہ گورنر ستیہ پال ملک بقیہ بھارت سے بہت کچھ چھپا رہے ہیں۔ ایسا کتنے عرصے تک کیا جاسکتا ہے۔ پڑوسی پاکستان بھی ان حالات میں مضطرب ہے۔ ایسا اضطراب آمیز ماحول کسی بھی معاملے میں اچھا نہیں ہوتا اور ہمیشہ کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔
وزیراعظم نے انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ میں سینکڑوں کروڑ کا سرمایہ مشغول کرنے کی بات کہی ہے۔ کیا سرمایہ کاری یونہی ہوجاتی ہے، کیا سرمایہ کار اپنا سرمایہ مشغول کرنے سے قبل کچھ نہیں سوچتا، کیا یہ نہیں دیکھتا کہ متعلقہ علاقے یا ملک میں امن و ضبط کا کیا حال ہے، کیا اسے اپنی سرمایہ کاری سے نفع حاصل ہوسکے گا کہ نہیں، وغیرہ۔ کبھی گائے، کبھی بیف، کبھی مندر، کبھی ٹوپی، کبھی لباس، کبھی داڑھی، کبھی دلت، کبھی عیسائی، کبھی علاقہ واریت تو کبھی زبان کے مسئلے پر وقفے وقفے سے پرامن ماحول کو بگاڑتے رہنا، کیا یہی ہے کروڑہا روپئے کی سرمایہ کاری کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا۔
نومبر 2016 کی ’بدترین‘ نوٹ بندی کے بعد مودی حکومت کو گھوم پھر کر کیاشلیس اکانومی کا اچھا بہانہ ہاتھ لگا تھا۔ اب وزیراعظم نے لال قلعہ سے کہا ہے کہ ڈیجیٹل پے منٹ کو اختیار کریں، کیاش سے گریز کریں۔ بنیادی طور پر عوام کو کیاش یا کیاشلیس سے کوئی عداوت نہیں، لیکن یہ دیکھنا اور یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ آیا پوری قوم کسی تبدیلی سے مساویانہ استفادہ کرسکے گی۔ بھارت کسانوں کا دیش ہے، ہماری معیشت کا بنیادی طور پر زراعت سے تعلق ہے۔ کیا مودی حکومت نے اچھی منصوبہ بندی کرلی کہ وہ دیہی علاقوں میں ملک کی 70 فی صد آبادی کو کیاشلیس سے روشناس کرا پائیں اور یہ فی الحال کوئی ترجیحی نشانہ ہے۔ کیاشلیس سسٹم کو زیادہ سے زیادہ شہری علاقوں میں بڑے پیمانے پر ااستعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے جڑے نقائص کو اچھی طرح دور کرنا ہوگا، کنکٹیویٹی کو مضبوط بنانا پڑے گا۔ کیا بھارت اس کے لیے فوری طور پر تیار ہے۔ علاوہ ازیں شہری علاقوں میں بھی چھوٹے کاروبار کرنے والوں، غریبوں، مزدوروں اور کئی دیگر گوشوں میں کیاشلیس سسٹم لاگو نہیں کیا جاسکتا، وہاں کیاش سے ہی کام لینا پڑے گا۔

Find out more: