بھارت کا دستور یا ’بھارتیہ سمویدھان‘ ہمارے ملک کا سب سے اعلیٰ قانون ہے۔ چنانچہ ہر شہری کو اس کے بارے میں اقل ترین جانکاری ضرور ہونا چاہئے۔ یہ دستاویز ایسا فریم ورک پیش کرتا ہے جس میں بنیادی سیاسی ضابطہ، ڈھانچہ، طریقہ کار، اختیارات، اور حکومتی اداروں کے فرائض کی نشاندہی کردی گئی اور یہ شہریوں کے لیے بنیادی حقوق، ہدایتی اصول، اور ان کے فرائض کی صراحت بھی کرتا ہے۔ یہ اس کرہ ارض پر کسی بھی ملک کا تدوین کردہ طویل ترین دستور ہے۔ ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر، صدرنشین، ڈرافٹنگ کمیٹی، کو عام طور پر دستور کا معمار اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔
دستور ہند، دستوری برتری کو پیش کرتا ہے، نہ کہ پارلیمانی برتری.... کیوں کہ اس کو پارلیمنٹ نے نہیں بلکہ دستورساز اسمبلی نے بنایا ہے اور ملک کے عوام نے اس اعلان کے ساتھ اختیار کیا جو دیباچہ میں درج ہے۔ دستور پر پارلیمان مقدم نہیں ہوسکتی ہے۔ بھارت کی دستورساز اسمبلی نے دستور کو اپنے 284 ارکان بشمول بی آر امبیڈکر، جواہر لعل نہرو، راجیندر پرساد، ولبھ بھائی پٹیل، ابوالکلام آزاد، شیاما پرساد مکرجی، فرینک انتھونی، سروجنی نائیڈو، ہنسہ مہتا، درگابائی دیشمکھ، امرت کور، وجیہ لکشمی پنڈت و دیگر کے دستخطوں کے بعد 26 نومبر 1949 کو منظور کیا اور یہ 26 جنوری 1950 سے نافذ العمل ہوا اور اسی دن ہم یوم جمہوریہ مناتے ہیں۔ اس دستور نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 اور انڈین انڈی پنڈنس ایکٹ 1947 کی جگہ ملک کے بنیادی ہیئت دستاویز کا موقف اختیار کیا، اور بھارت کی عملداری ”جمہوریہ ہندوستان“ بن گئی۔ دستوری پائیداری کو یقینی بنانے کے لیے وضع کنندگان نے برطانوی پارلیمنٹ کے سابقہ ایکٹس کو آرٹیکل 395 کے ذریعے منسوخ کردیا۔
دستور اعلان کرتا ہے کہ بھارت مقتدر اعلیٰ، اشتراکی، غیرمذہبی (سکیولر)، جمہوری جمہوریہ ہے، اور اپنے شہریوں کو انصاف، مساوات اور آزادی کا تیقن دیتا ہے، اور بھائی چارہ کے فروغ کی سعی کرتا ہے۔ 1950 کا اصل دستوری نسخہ پارلیمنٹ ہاوس، نئی دہلی میں ہیلیم گیس سے بھرے بکسہ میں محفوظ ہے۔ الفاظ ’سکیولر‘ اور ’سوشلسٹ‘ 1976 میں ایمرجنسی کے دوران دیباچہ میں شامل کئے گئے۔ چنانچہ دستور کے مطابق انڈیا میں دستوری پارلیمانی اشتراکی غیرمذہبی جمہوریہ کا سسٹم رائج ہے۔ اس کی تین شاخیں عاملہ، مقننہ اور عدلیہ ہیں۔ دو ایوان راجیہ سبھا اور لوک سبھا ہیں۔ عاملہ میں وزیراعظم زیرقیادت کابینہ پارلیمان کے ایوان زیریں کے لیے ذمہ دار ہے۔ عدلیہ کے تحت سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ڈسٹرکٹ کورٹس قائم ہیں۔ وفاقیت کے اعتبار سے بھارت اکائی پر مبنی (نیم وفاقی) ہے۔ صدرجمہوریہ اور نائب صدر الکٹورل کالج کے ذریعے منتخب کئے جاتے ہیں۔
دستورِ ہند میں بگاڑ کے سدباب کے لیے 2 جگہوں پر ٹھوس مزاحمتی گنجائشیں رکھی گئی ہیں۔ ہمارے دستور میں تاحال 103 ترامیم ہوچکی ہیں، جن میں تازہ ترین 12 جنوری 2019 کو کی گئی۔ اپنے نفاذ کے وقت اس میں 395 آرٹیکل 22 حصوں اور 8 شیڈول میں تھے۔ تقریباً 145,000 الفاظ کے ساتھ ہماری دستاویز دنیا میں الباما کے دستور کے بعد دوسرا طویل ترین نافذ العمل ڈاکومنٹ ہے۔ دستور میں دیباچہ اور 448 آرٹیکل ہیں، جن کی 25 حصوں میں زمرہ بندی کی گئی ہے۔ دستور میں 12 شیڈول اور پانچ ذیلی حصے ہیں۔
دستور ہند میں خامی کہیں یا کمی .... اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ ”بنیادی خاصیت“ کیا ہے جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، صرف اتنا درج ہے کہ دستور کے ناقابل تغیر بنیادی ڈھانچہ یا فریم ورک کو بگاڑا نہیں جاسکتاہے۔ اگر اس طرح کی ترمیم ہوتی ہے تو اسے بے اثر قرار دیا جائے گا، لیکن عجیب تضاد ہے کہ دستور ہند کا کوئی حصہ ترمیم سے محفوظ نہیں ہے، اور بنیادی ڈھانچہ کا نظریہ دستور کی کسی بھی گنجائش کی حفاظت نہیں کرتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق دستور کے بنیادی خصوصیات کالعدم نہیں کئے جاسکتے۔ تاہم، ان بنیادی خصوصیات کی پوری طرح تشریح نہیں کی گئی ہے اور آیا دستور کی کوئی مخصوص دفعہ ”بنیادی خاصیت“ ہے یا نہیں، یہ عدالتیں طے کریں گی۔

Find out more: