متحدہ اور تقسیم شدہ آندھرا پردیش کے سابق چیف منسٹر نارا چندرابابو نائیڈو اور ان کے بیٹے نارا لوکیش کو وائی ایس جگن موہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے چہارشنبہ کو گھر پر نظربند کردیا ہے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے آندھرا پردیش کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ڈی گوتم سوانگ نے ایک بیان میں کہا کہ مسٹر نائیڈو کو ”احتیاطی تحویل“ میں لیا گیا ہے، کیوں کہ ان کی سرگرمیاں کشیدگیوں میں اضافہ کررہی ہیں اور ضلع گنٹور کے پالناڈو علاقے میں لا اینڈ آرڈر کے لیے مسائل پیدا کررہی ہیں۔ اے پی پولیس کا اپنی کارروائی کے لیے اپنا جواز ہوسکتا ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ریاستی حکومت کے قائدین کھلے عام اپوزیشن کو دھمکاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پولیس ہمارے ساتھ ہے۔ پولیس کا
کام آیا آزادانہ طور پر کام کرنا ہے کہ جانبداری کے ساتھ حکومت کی ایماءپر جمہوریت کو کچلنا؟
چندرا بابو نائیڈو، ان کے فرزند لوکیش اور کئی تلگودیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) قائدین کو نظربند کرنے کا مقصد انھیں جگن ریڈی حکومت کے خلاف زبردست احتجاج میں حصہ لینے سے روکنا ہے۔ پالناڈو خطہ میں پولیس نے بڑے اجتماعات پر امتناع عائد کررکھا ہے، جو سیاسی رقابتوں کے سبب رونما ہونے والے تشدد سے بدترین متاثرہ علاقہ ہے۔ نائیڈو نے اپنی قیامگاہ پر اخباری نمائندوں کو بتایا کہ، ”یہ جمہوریت کے لیے سیاہ دن ہے۔ پولیس کارروائی ظالمانہ اور تاریخ میں عدیم المثال ہے۔ یہ حکومت انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ میں حکومت کو انتباہ دے رہا ہوں۔ میں پولیس کو بھی وارننگ دے رہا ہوں۔ آپ ہمیں محروس کرتے ہوئے ہم پر کنٹرول نہیں کرسکتے ہو“۔ وہ اس کارروائی کے خلاف آج بھوک ہڑتال کررہے ہیں۔ نظربند ہونے والے بعض دیگر ٹی ڈی پی قائدین ڈی اویناش، کے نانی اور بھوما اکھیلاپریا ہیں۔
چندرا بابو نائیڈو کی پارٹی کا الزام ہے کہ آٹھ ٹی ڈی پی ورکرز ہلاک کئے جاچکے ہیں اور کئی دیگر کو مسٹر جگن ریڈی کی پارٹی سے دھمکیوں کا سامنا ہے، جس نے اقتدار پر 100 روز گزشتہ ہفتے مکمل کئے ہیں۔ لوکیش نے نیوز ایجنسی ’اے این آئی‘ کو آج بتایا: ”برسراقتدار پارٹی سارے آندھرا پردیش میں ہماری پارٹی کا گلا گھونٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ ہماری سرگرمیاں جمہوری انداز میں جاری ہیں لیکن ہماری پوری قیادت کو گھر پر نظربند کردیا گیا ہے۔ یہ جمہوریت کا قتل ہے۔ یہ ڈکٹیٹرشپ ہے۔ ٹی ڈی پی لیڈروں اور ورکرز کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ وائی ایس آر سی پی ارکان اسمبلی ہمیں کھلی دھمکی دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ پولیس ان (برسراقتدار پارٹی) کے ساتھ ہے۔“
اس پر برسراقتدار پارٹی نے بھی آج جوابی مارچ کا منصوبہ بنایا جو مسٹر نائیڈو زیرقیادت سابقہ حکومت کی طرف سے مبینہ تشدد کے خلاف احتجاج ہے۔ وائی ایس آر سی پی نے ضلع آتماکور اور پالناڈو خطہ جو تشدد سے بدترین متاثرہ سمجھے جاتے ہیں، وہاں کے عوام سے آگے آنے اور اپنی شکایات پیش کرنے کی اپیل کی ہے۔ وائی ایس آر سی پی کا الزام ہے کہ اس کے قائدین، کارکنوں اور حامیوں کو ان کے دیہات سے نکال باہر کیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کئے گئے۔ سابق چیف منسٹر اور ان کے برسراقتدار حریف دونوں نے آج آتماکور تک مارچ کی اپیل کی ہے جو ریاستی دارالحکومت امراوتی سے 240 کیلومیٹر کی دوری پر ہے۔
ٹی ڈی پی کا کہنا ہے کہ وائی ایس آر سی پی برسراقتدار آنے کے بعد سے گزشتہ تین ماہ کے دوران اپوزیشن پارٹی کے کارکنان حکمران پارٹی کے قائدین اور کیڈر کی طرف سے حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں آٹھ ٹی ڈی پی ورکرز کی موت ہوئی، جن میں سے زیادہ تر تشدد کے معاملے میں مخدوش گنٹور کے پالناڈو ریجن میں پیش آئیں۔ لگ بھگ 500 پارٹی کارکنان پر حملے بھی کئے گئے ہیں۔ مسٹر نائیڈو کا اصل نشانہ سابق اسپیکر کوڈیلا سیوا پرساد راو ہے، جو اس ریجن سے مسٹر جگن ریڈی کی پارٹی کے بااثر لیڈر ہیں۔ وائی ایس آر سی پی نے تشدد بھڑکانے کے الزامات کی تردید کردی اور مسٹر نائیڈو کو جھوٹی کہانی گھڑتے ہوئے مسئلہ پیدا کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
اپریل اور مئی میں منعقدہ قومی اور ریاستی انتخابات میں جگن ریڈی کی پارٹی نے آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی کو شکست فاش دیتے ہوئے 175 اسمبلی کے منجملہ 151 اور 25 لوک سبھا نشستوں میں سے 22 جیت کر زبردست خط اعتماد حاصل کیا ہے۔ 46 سالہ جگن ریڈی ، وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے فرزند ہیں، جو متحدہ آندھرا پردیش کے مقبول چیف منسٹروں میں سے تھے اور 2009 میں ہیلی کاپٹر حادثہ میں ان کی جان گئی۔