پاکستان نے چہارشنبہ کو ہندوستان کی یہ درخواست مسترد کردی کہ وزیراعظم نریندر مودی کی وی وی آئی پی فلائٹ کو دورہ امریکا کے سلسلے میں روانگی کے لیے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ مودی نیویارک میں یو این جنرل اسمبلی سیشن میں شرکت کے لیے جارہے ہیں اور اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے وہ ہوسٹن میں ہندوستانی امریکی کمیونٹی کے زیراہتمام ’ہاوڈی ۔مودی‘ ایونٹ میں بھی شریک ہوں گے جہاں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ٹرمپ کی مودی سے خیرسگالی یقینا پاکستان کے لیے حیران کن ثابت ہوئی ہوگی۔ ہندوستان کے مغرب میں پاکستان واقع ہے اور مغرب کی طرف سفر کے لیے اس کی فضائی حدود استعمال کرنے پر انڈین فلائٹس کا زائد از ایک گھنٹہ بچتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان 5 اگست کو جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کردینے کے بعد سے مودی زیرقیادت حکومت ہند سے سخت ناراض ہے اور دونوں پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہوئی ہے۔لیکن ہندوستانی اقدام کے چند روز بعد ہی یو اے ای کا مودی نے ایک ایوارڈ کی وصولی کے سلسلہ میں دورہ کیا اور تب یہی عمران خان زیرقیادت پاکستان حکومت نے مودی کی فلائیٹ کے لیے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت قبول کرلی تھی۔ تاہم، اس کے چند روز بعد جب صدرجمہوریہ ہند رام ناتھ کووند کے آئس لینڈ کے بشمول سہ قومی دورے کا موقع آیا اور حکومت ہند نے دوبارہ پاکستان سے فضائی حدود کے استعمال کی اجازت چاہی تب پڑوسی ملک نے صدر کووند کے لیے ایسی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اور اب مودی کے دورہ امریکا کے لیے بھی اپنی فضائی حدود انڈین فلائیٹ کے لیے کھولنے سے انکار کردیا ہے۔
پاکستان کا یہ طرزعمل کچھ عجیب معلوم ہورہا ہے۔ جب انھیں کشمیر اور کشمیریوں کی اتنی ہی فکر ہے تو وہ دورہ امارات کے موقع پر ہی مودی کی فلائیٹ کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے سے منع کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ اور اس کے بعد دو متواتر موقعوں پر اجازت سے انکار سے وہ کیا پیام دینا چاہتے ہیں، کچھ واضح نہیں ہورہا ہے۔ 5 اگست کے بعد سے عمران خان اور ان کی حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی تائید و حمایت حاصل کرنے کی جہاں جہاں کوشش کی، لگ بھگ تمام جگہ اسے ناکامی ہوئی ہے۔ اب عمران خان کی پوری توجہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب پر مرکوز ہے۔ انھوں نے عہد کررکھا ہے کہ وہ پوری شدت سے کشمیر کا مسئلہ اٹھائیں گے۔
دوسری طرف امریکہ اور بالخصوص صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان اور خاص طور پر مودی کے تئیں خیرسگالی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ یہ صورتحال عمران خان اور پاکستان کے لیے مزید مشکلات پیدا کررہی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ ستمبر کا آخری ہفتہ دونوں پڑوسی قائدین کے لیے نیویارک میں کس طرح گزرتا ہے؟ وہاں سے کون کتنا کامیاب اور ناکام ہوکر اپنے وطن کو واپس لوٹتا ہے؟