وزیراعظم نریندر مودی جموں و کشمیر کی خودمختاری سے متعلق دستوری آرٹیکل 370 کی 5 اگست کو برخاستگی کے بعد سے ساتویں آسمان پر ہیں۔ پچھلے تقریباً چھ سال میں ہندوستانیوں نے ان کا جو اسٹائل آف ورک دیکھا ہے، اس کے پیش نظر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ہندوستانی لیڈر سے کہیں آگے کہا جاسکتا ہے۔ اس کا سب سے تلخ تجربہ وزیراعظم پاکستانی عمران خان کو ہوا ہے، جو یو این جنرل اسمبلی سیشن کے سلسلے میں امریکی دورے پر ہونے کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ 9 ستمبر 2001ءکے ورلڈ ٹریڈ سنٹر واقعہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی قیادت میں نام نہاد جنگ میں پاکستان کا شامل ہونا فاش غلطیوں میں سے ہے۔


وزیراعظم مودی کی صدر ٹرمپ کے ساتھ قربت کا معاملہ ہو جس کا مظاہرہ ہیوسٹن میں اتوار کو ’ہاوڈی مودی‘ جیسے پرائیویٹ ایونٹ میں صدر ٹرمپ کی شرکت سے ہوا، یا پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے معاملے میں امریکا کی بے التفائی .... ہر طرف تضادات کا مجموعہ دکھائی دیتا ہے۔ یہی امریکا اور وہاں یہی ریپبلکن پارٹی 2007 میں برسراقتدار (صدر جارج ڈبلیو بش) تھی ، تب وزیراعظم منموہن سنگھ کی قیادت میں یونائیٹیڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) ۔ II حکومت تھی جس نے امریکا کے ساتھ نیوکلیر معاملت طے کی۔ تب اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے واویلا مچایا تھا۔ آج اسی پارٹی کے مودی امریکی صدر سے گلے مل کر پھولے نہیں سما رہے ہیں۔ حتیٰ کہ انھوں نے ہیوسٹن کے ایونٹ میں ٹرمپ کی آئندہ سال کے صدارتی انتخابات کے لیے تائید بھی کردی، جو ڈیموکریٹک پارٹی سے ہندوستان کے راست ٹکراو کے مترادف ہے۔ زبردست دولتمند 73 سالہ ٹرمپ دوبارہ انتخاب کے خواہاں ہیں، جن کے خلاف 38 سالہ ڈیموکریٹ تلسی گبارڈ صدارتی الیکشن لڑیں گی۔


امریکا میں 1992 سے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں پارٹیاں باری باری دو، دو میعاد حکمرانی کررہی ہیں۔ بل کلنٹن (ڈیموکریٹ)، جارج بش (ریپبلکن)، براک اوباما (ڈیموکریٹ) امریکی دستور کے مطابق زیادہ سے زیادہ دو میعاد برسراقتدار رہ چکے، اور اب ٹرمپ (ریپبلکن) کی پہلی میعاد چل رہی ہے۔ شاید ان کو 28 سالہ امریکی رجحان سے بھی حوصلہ ملا ہے۔ تلسی ہندو ہیں اور امریکی صدارت کے لیے شاید کم عمر بھی۔ اس لیے بہت ممکن ہے ٹرمپ کو نومبر 2020 کے الیکشن کے نتیجے میں دوبارہ صدارت کا موقع مل جائے گا۔ یہ اتفاق ہے کہ دوسری میعاد کے لیے بھی ان کو خاتون حریف کا سامنا رہے گا۔ 2016 میں ہلاری کلنٹن کو ٹرمپ کے مقابل شکست ہوئی تھی۔


حیدرآباد دکن میں عام شہری کہتے ہیں کہ پولیس کی دوستی اچھی، نہ دشمنی۔ میں اس بات سے سو فیصدی تو اتفاق نہیں کرتا مگر امریکا کے تعلق سے کہوں گا کہ اس سے بہت زیادہ دوستی نہ کرو، نہ اس سے گہری دشمنی مول لو۔ اعتدال پسندی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ تاہم، ابھی مودی اور ان کی حکومت امریکا کے معاملے میں جس خوش فہمی کے ساتھ سرپٹ دوڑ رہے ہیں، وہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ جو امریکا کئی دہوں سے پاکستان کو ہندوستان کے مقابل ترجیح دیتے ہوئے یکایک اسے بھنور میں چھوڑ سکتا ہے، اس سے کچھ بھی عجب نہیں۔ امریکا نے سب سے زیادہ مسائل ایشیا میں پیدا کئے ہیں۔ وہ ہمیشہ چین سے خائف رہنے لگا ہے اور وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ تنازع پیدا کرتا رہتا ہے۔ اب دونوں میں تجارتی جنگ چل رہی ہے۔ ایران پر تحدیدات سے امریکہ نے ہندوستان کے لیے خام تیل کی درآمد کا مسئلہ پیدا کیا۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لیے کبھی ہندوستان کی تائید و حمایت نہیں کی۔ ایسی مزید کئی مثالیں ہیں جہاں امریکا نے صرف اور صرف اپنے مفادات کو مقدم رکھا، اس کے پاس دیگر تمام ممالک ہیچ ہیں۔ اس لیے خاص طور پر ’غیرمستقل مزاج‘ ٹرمپ زیرقیادت موجودہ امریکا سے تو مناسب فاصلہ برقرار رکھنا ہی بہتر ہے۔

Find out more: