مہاراشٹرا میں جہاں 24 اکٹوبر کو ریاستی اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد سے سیاسی تعطل بڑھتے بڑھتے صدر راج کے نفاذ اور سیاسی بحران کی شکل اختیار کرلی ہے، وہاں گزشتہ روز جیسے ہی شیوسینا، این سی پی، کانگریس مخلوط کی کچھ ٹھوس صورت گری ہوئی، مرکز میں برسراقتدار بی جے پی تلملا اٹھی۔ مہاراشٹرا میں الیکشن سے قبل دیویندر فرنویس کی قیادت میں بی جے پی مخلوط حکومت ہی قائم تھی۔ اگرچہ بی جے پی چناو میں 105 نشستوں کے ساتھ بڑی پارٹی بنی، لیکن تشکیل حکومت کیلئے 288 رکنی اسمبلی میں کم از کم 145 کی سادہ اکثریت درکار ہے۔ شیوسینا نے چند ماہ قبل کے لوک سبھا الیکشن کے وقت کچھ باہمی قول و قرار کی دہائی دیتے ہوئے 2.5 سال چیف منسٹری کا تقاضہ کیا، جس پر بی جے پی قیادت بپھر گئی اور پھر دونوں دیرینہ حلیفوں کے راستے حالیہ چند برسوں میں دوسری مرتبہ الگ ہوگئے۔
ریاستی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے ماقبل چناو کے بی جے پی۔ شیوسینا اتحاد میں تبدیلی کے باوجود پہلے بڑی پارٹی کو تشکیل حکومت کی دعوت دی، حالانکہ شیوسینا نے بی جے پی سے علحدگی کے بعد فوری این سی پی اور کانگریس سے کم از کم باہر سے تائید حاصل کرنے رابطہ قائم کرلیا تھا۔ خیر گورنر کا فیصلہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا جب بی جے پی نے حکومت کی دعوے داری سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ صاف ہے۔ نئے منتخب ارکان میں پورے آزاد کو بھی بی جے پی اپنا ہمنوا بنالے تو اس کی عددی طاقت 120 نہیں ہوتی۔ بہ الفاظ دیگر سینا، این سی پی، کانگریس کے زائد از 150 ایم ایل ایز میں سے بڑے حصے کی تائید و حمایت اسے درکار ہے، جو فی الحال ٹھوس عزم کے ساتھ سرگرم شرد پوار کی موجودگی میں بی جے پی کو ملنا ممکن نظر نہیں آتا۔
گورنر نے بی جے پی کے بعد شیوسینا کو مدعو کیا اور تب تک اس کی حکومت کیلئے دعوے داری پیش کرنے کیلئے پوری تیاری نہ ہونے کی بناءتیسرے نمبر پر این سی پی کو دعوت دی اور 24 گھنٹے کا وقت دیا۔ بعدازاں گورنر کوشیاری نے عجیب اقدام میں این سی پی کی مہلت ختم ہونے سے قبل ہی عجلت میں مرکز کو مہاراشٹرا میں صدر راج نافذ کردینے کیلئے رپورٹ بھیج دی۔ شاید وزیراعظم نریندر مودی کی سہولت کیلئے ایسا کیا گیا، جنھیں برکس سمٹ کیلئے برازیل روانہ ہونا تھا۔ بہرحال جاتے جاتے مودی نے کابینہ کی صدارت کرتے ہوئے مہاراشٹرا میں گورنر کی رپورٹ کی بنیاد پر صدر راج کے نفاذ کی سفارش صدرجمہوریہ کو بھیج دی۔ اس کے بعد کیا ہوا، کیا ہورہا ہے، یا کیا ہوگا، اسے الفاظ کی شکل دینے کی میرے خیال میں ضرورت نہیں۔
کانگریس کیلئے نظریاتی طور پر برعکس شیوسینا کی تائید و حمایت کا فیصلہ کرنا بہت مشکل رہا، لیکن اچھی بات ہے کہ شرد پوار کی موجودگی میں تینوں پارٹیاں جلد ہی مشترکہ اقل ترین پروگرام پر متفق ہوگئیں، جس کے مطابق چیف منسٹر شیوسینا سے ہوگا اور دو ڈپٹی چیف منسٹر رہیں گے۔ قلمدانوں کی تقسیم وقت پر کرلی جائے گی۔ مہاراشٹرا سیاست میں یہ دھماکہ خیز شیرازہ بندی طے ہوئی ہے جس پر بی جے پی چراغ پا ہوگئی اور صدر مہاراشٹرا بی جے پی چندرکانت پاٹل نے فوری بیان دے دیا کہ اُن کی پارٹی کی حکومت پر دعوے داری برقرار ہے۔ ان کی یادداشت اتنی کمزور ہے، اس کا اندازہ نہیں تھا۔ بی جے پی اتوار کو نئی حکومت کی تشکیل سے انکار کرچکی ہے۔
واہ رے، بی جے پی۔ اس پارٹی کو اترکھنڈ، جموں و کشمیر، گوا، منی پور، کرناٹک اور اب مہاراشٹرا میں دستوری اصولوں کی دھجیاں اُڑانے پر ذرا شرم نہیں آرہی ہے۔ یہ وہی پارٹی ہے جو 2014 سے قبل کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف واویلا کرتی تھی کہ وہ دستور کے منافی حکمرانی کررہے ہیں۔ صدر بی جے پی امیت شاہ کی تو منطق اور سوچ ہی الگ ہے۔ وہ کبھی کانگریس مکت بھارت کا راگ الاپتے ہیں، کبھی اپوزیشن سے آزاد انڈیا چاہتے ہیں، کبھی سارے ملک میں ایک پارٹی کا اقتدار اپنا مقصد بناتے ہیں۔ لیکن مودی۔ شاہ جوڑی یہ بھول رہی ہے کہ ہندوستان میں جب تک اس طرح الگ الگ وقتوں میں ریاستی و لوک سبھا انتخابات کا سلسلہ رہے گا، اقتدار کبھی اِس کا تو کبھی اس کا ہوتا ہی رہے گا۔ اگر یکساں اتحاد کا اقتدار یقینی بنانا ہو تو پھر دستور میں ترمیم کریں اور لوک سبھا کے ساتھ ساری اسمبلیوں کیلئے بھی یکساں الیکشن منعقد کرائیں۔
٭٭٭