ہندوستان میں مودی ۔شاہ حکومت کے شہریت ترمیمی بل (سی اے بی)، پھر شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) کے منصوبہ پر شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں ایجی ٹیشن چل رہا ہے۔ بی جے پی زیرقیادت مرکزی حکومت کی دوسری میعاد میں تیزی سے تین طلاق قانون، کشمیر سے متعلق دستورِ ہند کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ، اور بابری مسجد کی متنازع اراضی کی ملکیت کے مقدمہ میں سپریم کورٹ کے اکثریتی برادری کے حق میں فیصلے نے شاید سربراہ آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) موہن بھاگوت کی سرپرستی میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو کچھ زیادہ ہی خوش فہمی میں مبتلا کردیا کہ اب ملک کو ہندو راشٹرا بنانے کا وقت آگیا ہے۔
مودی ۔ شاہ سی اے اے کی شکل میں دور کی کوڑی کے ساتھ سامنے آئے اور کہنے لگے کہ ہم تو پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان میں ستم زدہ اقلیتوں (ہندو، سکھ، جین، پارسی، بودھ، عیسائی) کو ہندوستان کی شہریت کی پیشکش کررہے ہیں، کسی کی شہریت چھین نہیں رہے ہیں۔ اس کے بعد ان کا منصوبہ این آر سی کے آسام والے تجربے کو ملک گیر سطح پر وسعت دینے کا تھا۔ دیر آید درست آید کے مصداق سب سے پہلے شمال مشرق کے غیرمسلم ابنائے وطن نے سی اے اے پر احتجاج شروع کردیا جو آسام میں پھیل گیا اور تشدد کے واقعات پیش آئے۔ ایسی رپورٹس ہیں کہ شمال مشرق میں پرتشدد احتجاج کا دیگر مقامات پر فائدہ اٹھاتے ہوئے فرضی احتجاجیوں نے حقیقی احتجاجیوں کو مقدمات میں ماخوذ کرایا۔
مسلمانوں کو تحریک حاصل ہوئی اور چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کے زیراقتدار اترپردیش (یو پی) میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوا۔ پھر ملک کے طول و عرض میں مختلف گوشوں سے احتجاج اُبھرنے لگا۔ مرکزی حکومت بوکھلا گئی اور وزیراعظم ، وزیر داخلہ سے لے کر تمام دیگر بی جے پی وزراءاور قائدین جہاں جاتے وضاحت کرنے لگے کہ سی اے اے میں ہندوستان کے مسلمانوں کی مخالفت میں کچھ نہیں۔ کون کہہ رہا ہے کہ سی اے اے سے ہندوستانی مسلمانوں کو خطرہ ہے۔ خطرہ تو اسے این آر سی اور اب سیاسی پینترا بدل کر پیش کردہ این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر) سے مربوط کرنے پر ہوگا، جو احمقانہ گائیڈلائنس (رہنمایانہ خطوط) کے ساتھ لاگو کرنے کا منصوبہ ہے۔
خبردار۔ دوبارہ بربریت پر انڈیا ہوگا ٹکڑے
یوگی (جن کو بجا طور پر حیدرآبادی جسوین کور نے ’یوگی‘ کہنے غلط بتایا ہے کیونکہ ’یوگی‘ ایسی حرکتیں نہیں کرتے جو آدتیہ ناتھ کی حکومت میں ہورہی ہیں) حکومت نے مخالف سی اے اے این آر سی این پی آر احتجاجیوں پر ستم ڈھانا شروع کردیا ہے۔ موجودہ بی جے پی حکومت پہلے ہی درجنوں فرضی انکاونٹرس کے الزامات سے دوچار ہے۔ اب احتجاجیوں کو تشدد میں ملوث بتاتے ہوئے ان سے سرکاری املاک کو نقصان کا ہرجانہ وصول کیا جارہا ہے، حالانکہ ملک بھر میں مخالف شہریت قانون پر احتجاج کرنے والے پرامن مظاہرے پر زور دے رہے ہیں اور عمل بھی کررہے ہیں۔ تاہم، دیکھنے میں آیا ہے کہ بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں احتجاج تشدد کی شکل اختیار کررہے ہیں۔ یہ تشدد کون برپا کررہا ہے، اس کی تحقیقات نہیں ہورہی ہے۔
یو پی پولیس ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے دارالحکومت لکھنو سے اندرون 30 کیلومیٹر بعض دیہات کے مسلمانوں کو فی کس 50,000 روپئے کے مچلکے پیش کرنے پر مجبور کررہی ہے کہ وہ کسی قسم کے احتجاج میں حصہ نہیں لیں گے۔ ایسا ”احتیاطی اقدام“ شاید ملک میں پہلی مرتبہ کیا جارہا ہے۔ یہ سراسر مسلمانوں کا جینا دوبھر کرنے کی کوششیں ہیں۔ یہی روش رہی تو یو پی میں گودھرا ۔ 2 بھی برپا کیا جاسکتا ہے، جس کے بعد ’سرکاری سرپرستی‘ میں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اسے ”عمل کا ردعمل“ قرار دینے کی کوشش کی جائے گی۔ نہ یہ سال 2002 ہے اور نہ گجرات۔ یو پی ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ ہندوستانی مسلمان رہتے ہیں۔ بی جے پی حکومت کی کوئی بھی ”شرپسند حماقت“ اِس مرتبہ بھاری پڑسکتی ہے۔ یو پی حکومت ہو کر اسی پارٹی کا مرکزی اقتدار انھیں اچھی طرح اندازہ ہوجانا چاہئے کہ ان کا ہندو۔مسلم کارڈ ہمیشہ چلنے والا نہیں۔ بی جے پی حکومت سے مشرقی ہند میں ناراضگی ہے، جنوبی ہند میں ناراضگی ہے، مغرب میں مہاراشٹرا اور راجستھان جیسی ریاستیں ان کی گرفت سے نکل چکی ہیں۔ شمال میں وہ کشمیر کو ’بم‘ میں تبدیل کرکے سمجھ رہے ہیں کہ ہمالیائی چوٹی سر کرلی ہے۔ ایسی صورت میں کیا عجب ہے کہ آر ایس ایس کی سرپرستی میں مودی۔شاہ حکومت کی انتشار پسندی ملک کو بکھیر دے گی، ٹکڑے ٹکڑے کردے گی۔
افسوس کہ چیف منسٹر کے سی آر کی زیرحکمرانی تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد نے مخالف سی اے اے این آر سی این پی آر ایجی ٹیشن میں مایوس کیا ہے۔ اس میں اسد الدین اوسی زیرقیادت ایم آئی ایم اور ٹی آر ایس حکومت کا رول مشکوک نظر آرہا ہے کیونکہ کئی غیربی جے پی حکمرانی والی ریاستوں میں احتجاج کیلئے پولیس پرمیشن دیا جارہا ہے اور حیدرآباد بلکہ تلنگانہ میں سختی سے انکار کیا جارہا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کے سی آر فی زمانہ سیاسی طور پر بہت کامیاب ہیں، مگر ان کے قول و فعل میں ہمیشہ تضاد رہتا ہے۔ وہ اپنے موقف بار بار بدلنے میں ماہر ہیں۔ خیر ان کو اتنی رعایت تو دی جاسکتی ہے کہ وہ غیرمسلم ہیں جبکہ سی اے اے و این آر سی معاملہ جب کبھی لاگو ہو، راست مسلمانوں پر اثرانداز ہوگا۔ چنانچہ اسد اویسی کو کھل کر عوام کے ساتھ احتجاج میں حصہ لینا چاہئے تھا۔ مغربی بنگال میں ٹی ایم سی چیف منسٹر ممتا بنرجی اور مدھیہ پردیش میں کانگریسی چیف منسٹر کمل ناتھ ایسا کرسکتے ہیں تو ’مسلم نمائندہ جماعت‘ کو ایسا کرنے میں پس و پیش ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔
حیدرآباد میں سیاسی جماعت مخالف سی اے اے این آر سی این پی آر احتجاج میں بھلے ہی پیچھے ہے، لیکن خوشی کی بات ہے کہ دیگر تنظیمیں اور عوام الناس پیچھے نہیں ہیں۔ ہر کوئی اپنی حیثیت کی مطابق احتجاج درج کرانے کوشاں ہے۔ یہ تحریر بھی بطور صحافی میرا احتجاج ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سماج میں جب کبھی اشد ضرورت آن پڑی، کئی شخصیتوں نے اپنے بنیادی پیشہ کو تیاگ کر ’سیاسی ذمہ داری‘ بھی کامیابی سے نبھائے ہیں۔ راجیو گاندھی وزیراعظم بننے سے قبل پروفیشنل پائلٹ تھے، قلم سے وابستہ رہنے والے اندر کمار گجرال وزیراعظم بنے، ڈاکٹر منموہن سنگھ بنیادی طور پر ماہر معاشیات ہیں مگر لگاتار دس سال وزیراعظم رہے، جنوبی ہند میں کئی فلمی ستارے کامیاب سیاستداں بنے، آئی آر ایس آفیسر اروند کجریوال کرپشن کے خلاف انا ہزارے کے ساتھ جدوجہد کرتے کرتے چیف منسٹر دہلی بن گئے۔
رب ِکائنات نے مسلمانوں سے کہا ہے ”اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے .... “ یہ موضوع سورہ نمبر 2 البقرہ کی آیتوں 155 تا 157 میں ہے۔ خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کو نازل ہوئے 1400 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ ان صدیوں میں خود رسول اللہ صلعم کے زمانے سے آج تک ہر دور میں مسلمانوں کی کسی نہ کسی طرح آزمائش ہوئی ہے اور تاقیامت ہوتی رہے گی۔
لہٰذا، موجودہ طور پر فلسطین، شام، یمن، عراق، میانمار وغیرہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہورہا ہے جو مسلم تاریخ میں کچھ نیا نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان چیلنجوں سے اسی طرح نمٹنے کی کوشش کریں، جس طرح رسول اللہ صلعم، خلفائے راشدین اور بعد کے پرہیزگار حکمرانوں نے کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ اور پھر اس کی مدد آنے کی توقع رکھیں۔ یہی اللہ تعالیٰ کا اصول ہے، جس میں دنیوی اصولوں (قوانین پڑھا جائے) کی طرح ترمیمات نہیں ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر 2002 کا گودھرا ٹرین واقعہ اور اس کے بعد چیف منسٹر نریندر مودی کے اقتدار والی ریاست گجرات میں وسیع پیمانے پر فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکت ہوئی، عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں، کیا چھوٹے اور کیا بڑے کسی کو نہیں بخشا گیا، بربریت کا ننگا ناچ ہوا۔ اگر کوئی پیدائشی مسلمان ہونے پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد کا مستحق ہوجاتا تو گجرات میں جو کچھ ہوا کبھی نہ ہوتا۔ آپ کو ماضی قریب اور ماضی بعید میں لے جاتا ہوں۔ میانمار میں غریب روہنگیا مسلمانوں پر وہاں کی آرمی نے ایسے ستم ڈھائے کہ وہ اپنا گھربار چھوڑ کر فراری پر مجبور ہوگئے۔ آج ان کی بڑی تعداد بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہی ہے اور تھوڑی تعداد ہندوستان آگئی۔
چین اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا ’ویٹو پاور‘ ملک ہے۔ اس کی حرکتوں کو زیادہ تر میڈیا منظرعام پر لانے سے گریز کرتا ہے۔ شمال مغربی چین کے خودمختار علاقہ شنجانگ (عام طور پر سنکیانگ ژنجیانگ پڑھا جاتا ہے) میں اقلیتی مسلم وِیگر (ایغور سے معروف ہے) برادری پر چینی حکومت کی نت نئی پابندیاں عائد ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہاں روزہ رکھنا منع ہے، مساجد تعمیر نہیں کرسکتے، وغیرہ۔ تاہم، چین نے کبھی آزاد میڈیا کے ذریعے ان دعووں کی تصدیق کرنے کی اجازت نہیں دی اور وہ ہمیشہ کہتا آیا ہے کہ شنجانگ میں مسلمانوں پر کوئی ظلم نہیں ہورہا ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں ویگر برادری تقریباً 20 لاکھ ہے اور صحراوں اور پہاڑیوں کا یہ وسیع علاقہ منگولیا اور تبت کے درمیان واقع ہے۔ تقریباً 700 سال قبل منگول بادشاہ چنگیز خان اور اس کی نسل میں ہلاکو خان کی مسلمانوں کے خلاف بربریت اور وہ دور میں اسلام کے بڑے مرکز عراق میں برپا کی گئی تباہی و بربادی مسلم تاریخ میں شاید ہی کبھی پیش آئی ہوگی۔
مسئلہ یہ ہے کہ آج ہماری اکثریت کو قرآن سے لگاو ہے نہ اسلامی تاریخ سے دلچسپی۔ آج مسلمانوں کی اکثریت کھوکھلی ہوچکی ہے۔ وہ سمجھنے لگے ہیں کہ اسلام اور اقوال زرین پر مبنی اچھے اچھے ’ریڈی میڈ‘ پوسٹ واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا اکاونٹس پر ڈال دیں تو اپنی ذمہ داری ختم۔ ان پر عمل ہم نہیں کریں گے، کوئی اور کرلے۔ سب اسی طرح سوچیں تو وہی قصہ ہوجائے گا، جب کسی بادشاہ نے اپنی رعایا سے کہا کہ رات میں ایک گھڑا دودھ شاہی حوض میں لا کر ڈالیں اور صبح وہ اس سے نہائے گا۔ رعایا میں ہر کسی نے یہی سوچا کہ اگر وہ دودھ کی بجائے پانی ڈال دے تو کیا فرق پڑنے والا؟ نتیجتاً صبح شاہی حوض میں صرف پانی جمع تھا۔
٭٭٭