تلنگانہ میں لگاتار دوسری مرتبہ کمزور اور کٹھ پتلی ریاستی وزیر داخلہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کی پہلی میعاد جون 2014 سے ڈسمبر 2018 کے دوران این نرسمہا ریڈی کو وزارت داخلہ کا قلمدان دیا گیا تھا۔ پوری میعاد میں رسمی ایونٹس کے سواءمعلوم نہیں ہوا کہ ریاست میں وزیر داخلہ بھی موجود ہے۔ ریاست اور ملک میں ترتیب وار چیف منسٹر اور وزیراعظم کے بعد حکومت کا اہم ترین شخص وزیر داخلہ ہوا کرتا ہے۔ مرکز میں 2014 سے 2019 تک راجناتھ سنگھ کو وزیر داخلہ رکھا گیا۔ وہ بھی تلنگانہ کے وزرائے داخلہ جیسے ثابت ہوئے۔ اب دیکھئے امیت شاہ کے پاس امور داخلہ کا قلمدان آتے ہی ملک میں مودی حکومت کی جاریہ میعاد ہلچل، تیز تر سیاسی سرگرمیوں اور عوامی احتجاجوں کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
میں نے متحدہ آندھرا پردیش اور علحدہ ریاست تلنگانہ میں کم از کم چھ ، سات ریاستی حکومتیں ووٹر کی حیثیت سے دیکھی ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ محمود علی گزشتہ میعاد میں ڈپٹی چیف منسٹر اور وزیر مال رہے۔ ان کی پوری میعاد گزرنے کے بعد مجھے یہی سمجھ میں آیا کہ چیف منسٹر کے سی آر کو جو خود انتخابات سے قبل وزیر اعلیٰ نہ بننے کا اعلان کرنے کے بعد اعلیٰ وزارت حاصل کرلئے، ان کو محض مسلمانوں کی طرف سے کوئی چہرہ درکار تھا جو یقینی طور پر کام کچھ نہ کرے اور کٹھ پتلی وزیر بنا رہے۔ محمود علی بڑی انکساری سے کے سی آر کی قیادت میں وزیر بنے رہے۔ اب دوسری میعاد میں ان کو ڈپٹی سی ایم اور وزیر مال کے بجائے ریاست کے پہلے مسلم وزیر داخلہ کے نام پر امور داخلہ کا قلمدان سونپ دیا گیا۔
محمود علی نئی میعاد میں زائد از ایک سال سے وہی کچھ کررہے ہیں جو مودی حکومت کی گزشتہ میعاد میں راجناتھ سنگھ کرتے رہے۔ تلنگانہ حکومت کے کام کاج میں عملاً محمود علی کا کوئی کام نہیں، سوائے رسمی ایونٹس میں شرکت۔ حیدرآباد میں صنعتی نمائش کا افتتاح کردیا۔ کے سی آر حکومت کی متعدد وعدہ خلافیوں کے سبب مسلمانوں کو برہمی سے روکے رکھنے کچھ بیان دے دیا۔ جیسا کہ دو روز قبل انھوں نے کھمم میں بلدی چناو کے انتخابی جلسہ سے خطاب کے دوران کہا کہ تلنگانہ میں این آر سی لاگو نہیں ہوگا، مسلمان مطمئن رہیں۔ اب کون سمجھائیں محمود علی اور ان کی ٹی آر ایس حکومت کو کہ این آر سی ابھی کوئی مسئلہ ہی نہیں، اصل موضوع تو این پی آر ہے جو یکم اپریل 2020 کو شروع کرنے کا مرکزی حکومت اعلان کرچکی ہے۔ این پی آر دراصل این آر سی کیلئے پہلا قدم ہے۔ جب این پی آر ہوجائے تو پھر این آر سی کی تیاری کی جاسکتی ہے۔
مسلمان کے سی آر سے باضابطہ نمائندگی کرچکے ہیں اور مسلسل اپیلیں کرتے آئے ہیں کہ حکومت تلنگانہ دیگر ریاستوں جیسے کیرالا کی طرح این پی آر کا عمل روکنے کا اعلان کرے کیونکہ این پی آر کیلئے عملہ تو متعلقہ ریاست سے ہی فراہم ہونا ہے۔ کے سی آر خود کو بہت دانا سیاستدان سمجھتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ وہ کامیاب سیاستدان ہیں مگر وہ کامیابی مکاری اور جھوٹے وعدوں کے بل بوتے پر حاصل کرتے ہیں۔ ملک میں کئی لیڈر تین، تین میعاد تک چیف منسٹر رہے جیسے شیلا ڈکشٹ ، شیوراج سنگھ چوہان اور جیوتی باسو تو لگاتار 23 سال چیف منسٹر مغربی بنگال رہے۔ ان میں کے سی آر سے زیادہ انکساری دیکھی گئی۔ کے سی آر ”دیوار پہ بلی“ کا رویہ اپنائے رہیں گے اور سی اے اے، این پی آر، این آر سی جیسے نازک معاملے میں بھی چپی سادھنے کی سیاسی چال چلیں گے تو مجھے یقین ہے انھیں جلد یا بہ دیر سیاسی منہ کی کھانی پڑے گی۔ اور تب بھی یہ کٹھ پتلی وزراءکچھ نہ کرسکیں گے۔
٭٭٭