این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر) کا ایک سوال ہے کہ تمہارے باپ (یا ماں) کا مقام پیدائش کیا ہے؟ یہ بات راجستھان کے چیف سکریٹری ڈی بی گپتا نے جمعہ کو نئی دہلی میں میڈیا کو بتائی۔ وہ دراصل مردم شماری (سنسیس) 2021 اور این پی آر کے انعقاد کے طریقہ کار کے سلسلہ میں مرکزی وزارت داخلہ کی طلب کردہ ایک روزہ کانفرنس کے بعد مخاطب تھے۔ انھوں نے بتایا کہ راجستھان کے علاوہ چند دیگر غیربی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) حکمرانی والی ریاستوں نے این پی آر کے بعض غیرواجبی و نامعقول سوالات پر اعتراضات کئے ہیں۔
اس تحریر کا عنوان اسی طرح کے غیرضروری سوالات میں سے ہے۔ جب راجستھان کے بشمول ریاستوں نے ایسے سوالات پر اعتراضات کیا، تب وزارت داخلہ نے بہرحال این پی آر کے تمام سوالات کی مدافعت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ان کا جواب دینا لازمی نہیں بلکہ یہ اس عمل میں حصہ لینے والے کی مرضی پر منحصر ہے۔ مرکزی حکومت کی وضاحت نے مزید بڑا سوال پیدا کردیا کہ جب ایسے سوالات کے جواب دینا لازمی نہیں تو کون بے وقوف ہندوستانی ہے جو ایسے غیرضروری سوالات کے جواب دینا چاہے گا؟ جب کوئی جواب ہی ملنے کی امید نہ ہو تو ایسا سوال این پی آر کا حصہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ راجستھان چیف سکریٹری نے بتایا کہ وزارت داخلہ سے ایسے غیرضروری سوالات این پی آر سے حذف کردینے پر زور دیا گیا ہے۔
این پی آر میں لازمی اور اختیاری جواب کی بات نکلی تو یہ شبہ پیدا ہونا فطری امر ہے کہ آخر یہ مردم شماری 2021 سے کس حد تک اور کس طرح مختلف ہے؟ خود مودی حکومت نے 2015 میں 2010 کے یو پی اے حکومت کے منعقدہ این پی آر کو اَپ ڈیٹ کیا تھا۔ مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے خود کہا کہ این پی آر 10 سال میں ایک مرتبہ کا عمل ہے۔ اس اعتبار سے این پی آر 2025 ہونا چاہئے۔ پھر پانچ سال قبل سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون 2019) کے پس منظر میں این پی آر منعقد کرنے کا کیا جواز ہے؟
وزیر داخلہ امیت شاہ پارلیمنٹ میں چیخ کر بیان دے چکے ہیں کہ این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) قومی سطح پر لاگو کیا جائے گا، جس کا تجربہ آسام میں کیا جاچکا ہے۔ مودی حکومت کا منصوبہ ہے کہ ملک سے ہر درانداز کو باہر کیا جائے گا۔ یہ خیال ان کو ساڑھے پانچ سالہ حکمرانی کے بعد آیا ہے۔ پتہ نہیں وہ کس مدت کے اور کہاں کے دراندازوں کی بات کررہے ہیں؟ اگر 2014 سے پہلے کے درانداز ہیں تو مودی حکومت اب تک خواب غفلت میں کیوں تھی؟ اور اگر یہ درانداز مسلسل ملک میں گھس رہے ہیں تو سرحدوں پر نگرانی کے معاملے میں مودی حکومت کو جوابدہ کیوں نہ بنایا جائے؟
بہرحال مشکوک این پی آر عمل کے تعلق سے اعتراضات اور سوالات کا انبار ہے اور حکومت کے پاس جواب کچھ نہیں۔ وقفے وقفے سے وہ کچھ نہ کچھ وضاحت کرتے اور اپنے منصوبوں کے طریقہ کار میں تبدیلی کرتے جارہے ہیں۔ یہ سب ہندوستانی عوام کی توجہ مودی حکومت کی ہر محاذ پر ناکامی سے ہٹانے کیلئے ہے۔ اپوزیشن کو متحد ہوکر بہ یک وقت دو طرح کی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ سارے ملک کا احاطہ کرتے ہوئے اپوزیشن پارٹیاں سی اے اے، این پی آر ، این سی آر کی مخالفت میں احتجاج کرتے ہوئے مودی حکومت کو ان سے دستبرداری پر مجبور کریں۔ ساتھ ہی جگہ جگہ عام جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے عوام کو واقف کرائیں کہ مودی حکومت نے زندگی کے کس شعبے میں کیا گل کھلائے ہیں؟
٭٭٭