ایسا لگتا ہے کہ چیف منسٹر اترپردیش ’یوگی‘ آدتیہ ناتھ ریاست میں مخالف سی اے اے احتجاجوں پر مایوس ہورہے ہیں اور منگل کو دارالحکومت لکھنو میں خواتین کے زبردست احتجاج پر جھلا کر اپوزیشن پر الزام عائد کردیا کہ وہی لوگ جاریہ ایجی ٹیشن کی ’سرپرستی‘ کررہے ہیں۔ گزشتہ روز کے احتجاج میں سابق چیف منسٹر اکھلیش یادو کی 14 سالہ بیٹی ٹینا یادو، مشہور شاعر منور رانا کی بیٹیاں اور متعدد مشہور شخصیتوں کے متعلقین شریک ہوئے۔ اتفاق سے منگل کو ہی مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ (شہریت ترمیمی قانون کے مبینہ محرک) لکھنو میں سی اے اے کی حمایت میں بڑے جلسہ سے خطاب کررہے تھے۔ مرکزی وزیر داخلہ کی لکھنو میں موجودگی کے دوران سی سی اے کی مخالفت میں خواتین کے زبردست احتجاج پر ’یوگی‘ بلاشبہ بوکھلا گئے ہیں۔
چیف منسٹر یو پی نے دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کی طرف سے احتجاج کیلئے رقم دی جارہی ہے۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایسی حرکت الیکشن کے دوران جلسوں و ریالیوں کیلئے بھیڑ اکٹھا کرنے اور ووٹ حاصل کرنے کی خاطر کہیں نہ کہیں دیکھنے میں آتی ہے۔ آج مسلمانوں کی شہریت کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ ہم ہماری شناخت، ہماری آزادی، ہمارے جمہوری حقوق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ اس کیلئے ہمیں کسی کے چند روپیوں کی ضرورت نہیں۔ میں خود حیدرآباد کے احتجاجی ’ملین مارچ‘ میں دوست احباب کے ہمراہ شریک ہوا ہوں۔ مجھے معقول اندازہ ہے کہ انتخابی جلسوں و ریلیوں میں 100، 500 کی نوٹ لے کر شریک ہونے والوں کا انداز کیسا رہتا ہے اور جاریہ ایجی ٹیشن میں ازخود شرکت کرنے والوں کا جوش و جذبہ کس طرح کا ہے۔
شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور بعض دیگر طبقات کیلئے اتنا نقصان دہ نہیں جتنے خطرناک اس سے مربوط این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر) اور این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) ہیں۔ اول الذکر قانون 10 جنوری کو گزٹ آف انڈیا میں اشاعت کے ساتھ نافذ العمل ہوچکا ہے جبکہ این پی آر کو یکم اپریل سے سنسیس (مردم شماری) کے ہاوس لسٹنگ مرحلہ کے ساتھ منعقد کرنے کی مرکزی حکومت کی تیاریاں جاری ہیں۔ خود حکومت کے بیان کے مطابق این آر سی کیلئے پہلا قدم این پی آر ہے۔ اس لئے کیرالا، پنجاب، مغربی بنگال اور بعض دیگر ریاستوں نے این پی آر کے عمل میں مرکز سے تعاون نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کے پاس کئی عرضیاں داخل کی گئیں جن پر سماعت 22 جنوری کو متوقع ہے۔
بارہ 12 ڈسمبر کو سی اے اے کی منظوری کے بعد شمال مشرق سے احتجاج شروع ہوا مگر 15 ڈسمبر کی رات جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں دہلی پولیس کی بربریت نے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ تب سے جو احتجاج شروع ہوا تو ملک کے گوشے گوشے میں پھیل چکا ہے۔ قومی دارالحکومت کے مسلم اکثریتی علاقہ شاہین باغ کی خواتین نے زائد از ایک ماہ سے مسلسل احتجاجی کیمپ کے ذریعے پورے ملک کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ شاہین باغ مخالف سی اے اے، این پی آر، این آر سی احتجاج کی علامت بن چکا ہے۔ کئی ریاستوں جیسے مغربی بنگال، بہار، مہاراشٹرا وغیرہ میں ”شاہین باغ“ قائم ہورہے ہیں۔
اس پوری مدت میں نمایاں بات مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کی حکمرانی والی دو اہم ریاستوں اترپردیش اور کرناٹک میں تک مسلمانوں اور ان کے ساتھ قابل لحاظ تعداد میں غیرمسلم ابنائے وطن کی جاریہ ایجی ٹیشن میں شرکت ہے۔ خاص طور پر یو پی میں حکومت عوام کی ناراضگی کو کسی بھی طرح دبانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسٹیٹ پولیس نے کچھ اسی طرح کی حرکتیں کئے جیسے دہلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس میں کیا ہے۔
یو پی میں پرامن احتجاجوںکو شرپسند عناصر کے ذریعے پرتشدد بنایا گیا اور اس دوران سرکاری و خانگی املاک کو نقصان پر احتجاجیوں سے ہرجانہ وصول کیا گیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، بی جے پی حکمرانی والے ہریانہ میں خودساختہ ’بابا‘ رام رحیم گرمیت سنگھ کی گرفتاری اس کے حامیوں کے بڑے پیمانے پر تشدد کے درمیان ممکن ہوسکی۔ وہ تو سرکاری اقدام میں سراسر مداخلت ہوئی مگر بی جے پی حکومت کو ہرجانہ وصول کرنے کا خیال تک نہ آیا۔ یو پی میں پہلے تو پرامن احتجاج کو جو ہر شہری کا جمہوری حق ہے، پرتشدد بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، اور اس کے بعد ہرجانہ وصولی کا اقدام مسلط کیا جارہا ہے۔
دہلی میں منگل کو سینئر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن اور جہدکار راجیو یادو کے ساتھ سربراہ ’رہائی منچ‘ محمد شعیب نے یو پی پولیس کے ظلم و ستم اور یوگی حکومت کے دشمنانہ رویہ سے میڈیا کو واقف کرایا ہے۔ 76 سالہ جہدکار کو مخالف سی اے اے احتجاج میں ’تشدد‘ پر گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ جہدکار راجیو یادو کی سلامتی کے تعلق سے محمد شعیب نے کہا کہ پولیس نے ان کے تعلق سے سوالات کئے ہیں۔ پرشانت بھوشن نے کہا کہ یو پی پولیس ’کمیونل کریمنلس کی سب سے بڑی منظم گینگ‘ ہے۔یوگی حکومت کی آدھی میعاد گزری ہے۔ یو پی کا امیج اس قدر بگڑ چکا ہے۔ بہت تشویش کا معاملہ ہے کہ ایسے نظم و نسق اور ایسے پولیس سسٹم والی ریاست میں کچھ بھی ’ناخوشگوار‘ واقعہپیش آسکتا ہے۔
٭٭٭