شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو صدارتی منظوری کے بعد تقریباً تین ہفتے تک ملک کے لگ بھگ طول و عرض میں مخالف سی اے اے کیساتھ مخالف این پی آر، مجوزہ این آر سی احتجاج پھیل چکا تھا۔ تاہم، غالباً ملک میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والا مشہور شہر حیدرآباد ایجی ٹیشن میں صاف طور پر پیچھے نظر آرہا تھا۔ اس کی وجوہات یقینا تلنگانہ میں برسراقتدار ٹی آر ایس اور پرانا شہر کی نمائندہ جماعت ایم آئی ایم رہے۔ ٹی آر ایس سربراہ کے سی آر میں ہمیشہ اور ہر معاملے میں ”انتظار کرو اور دیکھو “ اور صرف اپنے فائدے کا موقف اختیار کرنے کی عادت جڑ پکڑچکی ہے۔ بلاشبہ اپنا فائدہ تو شاید ہر انسان کو عزیز ہوگا مگر میرا مطلب سیاسی لیڈر کے عوام سے وعدے کرتے ہوئے ووٹ بٹورنے سے ہے۔ جیسے ہی ووٹ حاصل ہونے پر اپنا مقصد پورا ہوجائے، وہ تمام وعدے بھول جاتے ہیں اور پھر اگلے الیکشن سے قبل نئے وعدوں کے ساتھ اور ڈھونگ کے نئے رنگ کے ساتھ عوام سے رجوع ہوتے ہیں۔
بہرحال 4 جنوری کو تلنگانہ و اے پی کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے کنوینر و تحریک مسلم شبان کے سربراہ محمد مشتاق ملک کی قیادت میں سی اے اے، این پی آر، این آر سی کیخلاف حیدرآباد میں شاندار احتجاجی ’ملین مارچ‘ کا اہتمام کیا، جس کا نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی چرچا ہوا۔ یوں سمجھئے کہ ملین مارچ نے حیدرآبادیوں کو جگا دیا۔ حتیٰ کہ وہی ایم آئی ایم جو ملین مارچ میں مبینہ طور پر رخنہ ڈال رہی تھی، 10 جنوری کو احتجاجی ریلی و جلسہ منعقد کرنے پر مجبور ہوئی۔ یہ احتجاج بھی کامیاب رہا، جس کے ساتھ ایم آئی ایم کے حامیوں، مخالفین اور غیرجانبدار افراد یعنی تمام حیدرآبادیوں کو راحت ملی کہ خدا خدا کرکے شہر حیدرآباد نے عرصے بعد کوئی کام میں تو یکساں طور پر حصہ لیا ہے۔
گزشتہ روز (جمعرات) پرانے شہر کے قدیم محلہ مغلپورہ میں حیدرآباد کے پرجوش نوجوانوں نے دہلی میں جاری شہرت یافتہ شاہین باغ ایجی ٹیشن کی طرز پر خانگی مقام پر چند درجن خواتین کے ساتھ رات کے ابتدائی حصے میں احتجاج شروع کیا۔ جلد ہی نوجوان لڑکے بھی جمع ہونے لگے اور اس کی خبر تیزی سے پھیلنے لگی۔ ٹی آر ایس حکومت نے تلنگانہ میں بلدی انتخابات کے بعد سی اے اے، این پی آر، این آر سی پر اپنا موقف واضح کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ 22 جنوری کو الیکشن ہوچکا۔ شاید چیف منسٹر اور حکومتی نظم و نسق کی تھکن ابھی دور نہیں ہوئی ہے۔ چنانچہ سٹی پولیس نے معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مغلپورہ کا احتجاج ختم کرانے کی کوشش کی، حتیٰ کہ لاٹھی چارج بھی کیا۔ تاہم، چند خواتین اور نوجوان ڈٹے رہے اور رات دیر گئے کی اطلاع کے مطابق احتجاجی دھرنا جاری تھا۔
سٹی پولیس کی کوشش کی ایک وجہ اگلے روز جمعہ کا موقع ہوسکتی ہے کیونکہ بالخصوص پرانے شہر میں جمعہ کے موقع پر مذہبی جذبات میں جوش زیادہ ہوجاتا ہے اور پولیس و حکومت نہیں چاہتے کہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آئے۔ ٹھیک ہے، بالکل ٹھیک ہے۔ ایسی صورت میں پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو مداخلت کرتے ہوئے مغلپورہ میں احتجاج کے آرگنائزرس سے سنجیدگی سے بات کرنا چاہئے تھا۔ اس کے بجائے انھوں نے طاقت کا استعمال کیا۔ میری رائے میں مسلمانوں کیلئے سی اے اے، این پی آر اور این آر سی ایسا سنگین مسئلہ ہے کہ کسی بھی سٹی، اسٹیٹ پولیس کیلئے کروڑہا ہندوستانی مسلمانوں کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے۔ سرحدوں سے فوج کو بھی طلب کرلیں تو شاید اندرون ملک مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا، بلکہ سرحدوں پر نئے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔
مختصر یہ کہ مجھے اب فخر ہورہا ہے کہ حیدرآباد اب اینٹی سی اے اے، این پی آر، این آر سی ایجی ٹیشن میں ملک کے ساتھ اصل دھارے میں شامل ہوچکا ہے۔ ابھی کچھ دیر قبل نماز جمعہ کے بعد مساجد میں اللہ تعالیٰ سے ہندوستانی مسلمانوں کے جان و مال، عزت و آبرو اور اپنی مستحقہ ملکی شہریت کی حفاظت کیلئے دعائیں مانگی گئیں۔ اس کے ساتھ عہد کیا گیا کہ یکم اپریل سے معلنہ این پی آر میں مسلمان ہرگز تعاون نہیں کریں گے۔ ”ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے“ ، ”ہم فارم نہیں بھریں گے“۔ جو فرقہ پرست ارباب اقتدار جنتا سے شہریت کا ثبوت پوچھنے لگے ہیں، ان کو چاہئے کہ سب سے پہلے وہ اپنی شہریت ثابت کریں۔ اپنی تعلیمی قابلیت کا ثبوت فراہم کریں۔ قوم اور ووٹروں سے جھوٹ بول کر ووٹ بٹورنے والوں کو اقتدار کا نشہ چڑھ گیا ہے۔ ووٹر خاموش رہے تو لیڈر موج منا سکتا ہے، لیکن ووٹر بپھر جائے تو اسے خیر منانے کے سواءکوئی چارہ نہیں رہے گا۔
٭٭٭