کھیل کود یا اسپورٹس میں کوئی اسٹار بنے، بین الاقوامی مقابلوں کی سب سے اونچی سطح اولمپکس تک پہنچے اور میڈل بھی جیتے، وہ اسٹارز ذہنی یا جسمانی یا پھر دونوں اعتبار سے مضبوط ہوتے ہیں۔ ایسے زیادہ تر اسٹارز صاف ستھرے ذہن کے حامل ہوتے ہیں۔ میرا مطلب ہے، ان میں تعصب، تنگ نظری اور فرقہ پرستی کے اثرات نہیں ہوتے۔ تاہم، ہر معاملے میں عام رجحان سے ہٹ کر بھی ہوا کرتا ہے۔ شاید سائنا نہوال کی بی جے پی میں شمولیت ایسا ہی معاملہ ہے۔

 

سائنا بیڈمنٹن کی دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کرنے والی پہلی لڑکی بنی۔ سابق عالمی نمبر 1 کھلاڑی، 24 انٹرنیشنل ٹائٹلز اور 2012 اولمپکس میں ویمنس سنگلز برونز میڈل جیتنے والی29 سالہ سائنا نے اپنی بڑی بہن چندرانشو نہوال کے ساتھ دہلی میں رواں ہفتے بی جے پی میں شمولیت کے ساتھ عملاً اپنا کریئر ختم کرلیا ہے۔ ویسے بھی پی وی سندھو کی آمد کے بعد بیڈمنٹن میں سائنا پیچھے ہوگئی تھی۔ سائنا کی پیدائش ہریانہ کے ہسار میں ہوئی لیکن ان کی پرورش اور مستقل سکونت حیدرآباد میں ہوئی۔ 

 

پدم بھوشن، پدم شری، راجیو گاندھی کھیل رتن جیسے اعلیٰ اعزازات کی حامل سائنا بی جے پی میں شامل ہونے والی پہلی اولمپین نہیں ہے۔ اس سے قبل 2004 اولمپکس میںمینس ڈبل ٹراپ کے سلور میڈلسٹ راجیہ وردھن سنگھ راٹھوڑ (راجستھان) بی جے پی میں شامل ہوئے اور موجودہ طور پر مرکزی وزیر ہیں۔ راٹھوڑ کی عمر اب 50 سال ہے۔ انھوں نے 2013 میں اپنی پختہ عمر میں بی جے پی میں شمولیت کا اقدام کیا۔ تب نریندر مودی قومی سیاسی منظر پر ابھر رہے تھے ۔ یقینا راٹھوڑ نے اسی کے زیر اثر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہوگی۔

 

مجھے 29 سالہ سائنا کے تجزیے پر تعجب ہوا کہ وہ مودی حکومت کی کارکردگی سے متاثر ہوکر بی جے پی میں شامل ہوئی ہیں۔ انھوں نے فرقہ پرست پارٹی میں شامل ہونے کی عجیب مضحکہ خیز وجہ بتائی۔ میں بی جے پی کو فرقہ پرست، متعصب اور تنگ نظر اس لئے کہتا ہوں کہ ہمیشہ ان کی سیاست فرقہ واریت، تعصب اور تنگ نظری پر مبنی ہوتی ہے۔ موجودہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی مثال لیجئے۔ یہ واضح طور پر فرقہ پرستی، تنگ نظری اور تعصب کا عکاس ہے۔ اس میں مسلمانوں کو چھوڑ کر چھ مذاہب کے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے۔ 

 

سائنا 2014 میں جب مودی نے وزیراعظم کی حیثیت سے مرکزی اقتدار سنبھالا، 23 سالہ کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلوں کے میدانوں میں مصروف تھیں۔ ان کو شاید کچھ اندازہ نہیں کہ جس حکومت کی کارکردگی کی وہ ستائش کررہی ہیں، اس کی کارگزاری یوں رہی کہ پہلی میعاد میں مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف لنچنگ اور شدید زدوکوب کے واقعات ہوتے رہے۔ نومبر 2016 میں نوٹ بندی کے ذریعے آزادی کے بعد سے بڑا اسکام کیا گیا، جس میں لاکھوں افراد نوکریوں سے محروم ہوگئے۔ نوٹ بندی کی قطاروں میں ٹہر کر زائد از 100 افراد فوت ہوئے۔ 

 

چند ماہ بعد ناقص جی ایس ٹی کے ذریعے چھوٹے بڑے کاروباروں کو بھاری زک پہنچائی گئی۔ ساڑھے پانچ سال کی مودی حکومت نے ہندوستانی معیشت کی وہ درگت بنائی کہ جی ڈی پی کی شرح ترقی 5 فیصد سے گھٹ گئی جو 2014 سے قبل 10 فیصد کے قریب پہنچ چکی تھی۔ سال میں دو کروڑ روزگار دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ الٹا ہر سال لاکھوں نوجوانوں کا بیروزگاروں میں اضافہ ہورہا ہے۔ سائنا نے لڑکی ہونے کے ناطے کم از کم لڑکیوں اور خواتین کے خلاف جرائم کا ہی جائزہ لے لیا ہوتا۔ نربھئے کیس کے چار مجرمین کو سنائی گئی پھانسی کی سزا پر عمل آوری کو 22 جنوری سے بار بار روکا جارہا ہے۔ صدرجمہوریہ سے لے کر وزیراعظم مودی کی حکومت تک سب خاموش ہیں۔ شاید انھیں چاروں ہندو مجرمین کو پھانسی پر چڑھانے میں پس و پیش ہورہا ہے۔

 

ایسا نہیں کہ ملک میں فرقہ پرست پارٹی صرف بی جے پی ہے۔ بے شک، مسلمانوں اور دیگر طبقات میں بھی فرقہ پرست پارٹیاں ہیں۔ مگر مرکزی ہو کہ ریاستی اقتدار، ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سارے عوام سے یکساں سلوک کرنا دستور کے مطابق لازم ہے۔ مودی کی پارٹی بی جے پی کا ووٹنگ تناسب 38% ہے۔ یعنی رائے دہی میں حصہ لینے والے 62% ووٹروںنے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا۔ پھر بھی یہ جمہوریت کی انفرادیت ہے کہ دیگر کے مقابل تھوڑے فرق سے آگے رہنے والی پارٹی (یا اتحاد ) کو سارے ملک پر حکمرانی کا حق سونپ دیا جاتا ہے۔ 

 

اس کے بعد ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ حکومت وسائل تو سارے ملک کے استعمال کرے لیکن فائدہ محض ان 38% کو پہنچائے جنھوں نے اس کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں۔ شیوسینا کو بھی ہندوتوا اور فرقہ پرست پارٹی کہا جاتا ہے مگر موجودہ طور پر وہ کانگریس اور این سی پی کے ساتھ مل کر مہاراشٹرا کی حکومت چلا رہی ہے۔ مختصر عرصہ میں اس کے کئی حکومتی فیصلے غیرجانبدار اور سکیولر نوعیت کے ہوئے ہیں۔
٭٭٭

Find out more: