بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حلقوں میں حالیہ عرصے میں بڑے فخر کے ساتھ یہ نعرہ لگایا جارہا ہے کہ ”مودی ہے تو ممکن ہے“۔ نریندر مودی یا بی جے پی سے جڑا یہ سب سے پرانا نعرہ نہیں۔ سپٹمبر 2013 میں جب ان کو بی جے پی اور عملاً این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کا بھی وزارت عظمیٰ امیدوار نامزد کیا گیا تھا، تب سب سے پہلے دو نعرے نمایاں ہوئے .... ”اب کی بار مودی سرکار“ اور ”سب کا ساتھ، سب کا وکاس“۔ بے شک، پہلا نعرہ حقیقت بنا اور 2014 جنرل الیکشن کے نتیجے میں واقعی مودی سرکار تشکیل پائی۔ میرے خیال میں اس کے بعد بی جے پی والوں کا کوئی بھی نعرہ حقیقت کا روپ نہیں لے سکا۔ یہ اور بات ہے کہ برسراقتدر پارٹی اور ان کے حامیوں کی رائے بالکلیہ برعکس ہے۔
جہاں تک ”مودی ہے تو ممکن ہے“ کا نعرہ ہے، میں اسے اس طرح نہیں سمجھ پارہا ہوں جس طرح ”اب کی بار مودی سرکار“ سمجھ میں آیا تھا۔ ذہن میں بار بار یہ سوال آرہا ہے کہ مودی تو ہے، لیکن ”ممکن کیا ہے؟“ مودی چیف منسٹر تھے ، تب کرپشن (بدعنوانی یا رشوت ستانی) کا جو معاملہ تھا، وہ ان کے وزیراعظم بننے سے کچھ نہیں بدلا۔ آج بھی پورے ملک کے لگ بھگ ہر گوشے میں کرپشن کا دور دورہ ہے۔ کیا یہ سچ نہیں کہ کرپشن کا خاتمہ 2014 کے الیکشن میں مودی جی کے متعدد بڑے وعدوں میں سے تھا۔ یہی تو وہ وعدے رہے جن پر بھروسہ کرتے ہوئے عوام نے انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) یعنی کانگریس کی قیادت والے یونائیٹیڈ پروگریسیو الائنس (یو پی اے) کو اقتدار سے بے دخل کیا۔ 2016 میں عوام کو متزلزل کردینے والے اقدام ’نوٹ بندی‘ کے وقت وزیراعظم نے یہی دعویٰ کیا تھا کہ اس کا مقصد کرپشن پر ضرب لگانا ہے۔ کس حد تک ضرب لگی، انھوں نے کبھی عوام کو بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ معاف کرنا! انھوں نے اپنی کابینہ کو تک بتانا ضروری نہیں سمجھا تو ان کی نظر میں عوام کی کیا وقعت ہوسکتی ہے؟
میں سمجھتا ہوں، کرپشن ہے تو ترقی ممکن نہیں۔ مرکزی حکومت کا ادعا ہے کہ 2014 سے بس ترقی ہی ترقی ہورہی ہے، جس کا ثبوت 2019 کے الیکشن میں بی جے پی کا مزید اکثریت سے اپنا اقتدار برقرار رکھنا ہے۔ اگر کوئی پارٹی کو دو یا زیادہ میعاد کے لیے کسی طرح اقتدار مل جائے تو اسے قوم کی ترقی پر محمول کرنا احمقانہ پن ہوگا۔ میں تو ملک و قوم کی ترقی اسے مانتا ہوں جب عوام کا معیار زندگی بہتر ہو، ان کے لیے انفراسٹرکچر بہتر ہوجائے، ان کے بچوں کی اچھی تعلیم یقینی ہوجائے، ان کو رہنے کے لیے گھر نصیب ہوجائیں، نوجوانوں کو روزگار کے لیے وطن چھوڑ کر جانے کی چاہ نہ ہو بلکہ وہ والدین کے ساتھ رہتے ہوئے اپنی پیدائش والی سرزمین پر اچھے کرم کریں۔ اگر مودی حکومت کی نظر میں ترقی کا مطلب یہ ہے کہ ارب پتی مکیش امبانی کی دولت میں اضافہ ہوتا رہے، برسراقتدار لیڈروں کے اثاثے کئی گنا بڑھ جائیں، وزیراعظم زمین پر موجود ہر ملک کا دورہ کرنے کا ریکارڈ قائم کریں .... تو اسے اپنے اور اپنوں کے ”ذاتی مفادات“ کی تکمیل کہیں گے، 130 کروڑ سے زیادہ عوام کی اکثریت کا اس سے کچھ بھلا ہونے والا نہیں۔
کرپشن کی عالمی درجہ بندی میں ہندوستان ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ 2018 کرپشن پرسپشنس انڈکس کے مطابق 175 ملکوں کے منجملہ 78 واں اقل ترین بدعنوان ملک ہے، یعنی 77 ممالک بھارت سے بہتر ہیں۔ 1995 سے 2018 تک انڈیا کا اوسط کرپشن رینک 75.67 ہے، جب کہ سب سے اونچا رینک 2011 میں 95 اور سب سے کم 1995 میں 35 تھا۔ اب ہندوستان میں کیا ایسا کوئی سرکاری شعبہ ہے جہاں عوام کے لیے بدعنوانی سے کام نہیں ہوتا؟ ہوسکتا ہے کہ چند گوشے نکل آئیں، لیکن کیا ہندوستان جیسے بڑے دیش کا ایسی صورتحال میں حقیقی معنی میں ترقی کرپانا ممکن ہے؟ اسی لئے، میں کہتا ہوں کہ ”کرپشن ہے تو ترقی ممکن نہیں ہے“۔