انسانی زندگی میں مذہب اور عقیدہ کا بڑا دخل ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی مذہب سے وابستہ ہوتا ہے اور اگر نہیں ہوتا تو وہ کسی نہ کسی مخصوص عقیدہ پر عمل پیرا رہتا ہے۔ مذہب اور عقیدہ سے وابستگی انسانی فطرت میں شامل ہے۔ اس کے بغیر کوئی بھی انسان حقیقی انسانی زندگی نہیں گزار سکتا۔ مذہب کی تعلیمات نہ ہوں تو کوئی مہذب نہیں بن سکتا۔ اس طرح عقیدہ درست نہ ہو تو انسان عمر بھر کبھی اِس خیال میں تو اس خیال میں بھٹکتے رہتا ہے۔ اس لئے ہندو ہو یا مسلمان یا یہودی یا عیسائی یا سکھ یا اور کوئی بھی مذہب و عقیدہ سے وابستہ انسان ہو، وہ اپنے مذہب کی تعلیمات کا عکاس ہوتا ہے۔
کوئی مذہب جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، چوری کرنا، عصمت ریزی کرنا، زنا کرنا، قتل کرنا نہیں سکھاتا۔ بنیادی طور پر تمام مذاہب اچھی تعلیمات دیتے ہیں۔ میں مسلمان ہونے کے ناطے اسلام کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب سے اہم بات خدا کی وحدانیت پر زور دیتا ہے اور مکمل دستورِ حیات ہے۔ اس سے دیگر مذاہب والوں کو اختلاف ہوسکتا ہے مگر ہر انسان کو اپنی مذہبی روش منتخب کرنے کا اختیار ہے۔ اسی کے مطابق اس کا عمل ہوگا اور اسی کے مطابق اسے اِس دنیا اور بعد والی زندگی میں پھل ملے گا۔
دیگر مذاہب کے بارے میں تبصرے کرنا میرے لئے مناسب نہیں۔ تاہم، میں اسلام کو مانتا ہوں اور اس پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کوشاں رہتا ہوں۔ اسلام کا منبع اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ قرآن مجید اور خود نبی صلعم کی سیرت ہے۔ لوگوں میں عام خیال ہے کہ قرآن مجید اور سیرت نبی صلعم بہ شکل احادیث صحیحہ محض علماءکرام، مفتیان کرام اور اعلیٰ مذہبی تعلیم یافتہ جیسی مخصوص شخصیتوں کیلئے ہے۔ بس وہی قرآن مجید کو سمجھ سکتے ہیں بلکہ صرف ان ہی کو سمجھنا چاہئے اور عوام الناس کو بلاچوں چراں ان کی تقلید کرنا چاہئے۔
یہ رجحان درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید عوام الناس کے سمجھنے کیلئے نازل کیا ہے۔ بہتر تعلیم یافتہ علماءکرام اور مفتیان کرام قرآن مجید کی تعلیمات کو جلد یا بہتر طور پر ضرور سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عوام الناس اپنے ذہن اور اپنی عقل کو ماوف کررکھیں اور محض مخصوص مذہبی شخصیتوں پر انحصار کریں۔ ان سے قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کو سمجھنے میں مدد ضرور لیجئے مگر قرآن مجید کا ہر انسان پر حق ہے کہ اسے پڑھے، سمجھنے کی کوشش کرے، اور سمجھنے میں دقت آئے تو بہتر تعلیم یافتہ شخصیتوں سے رجوع ہوں۔
یہ ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اشرف المخلوقات میں کوئی سرے سے ان پڑھ یا کم پڑھا لکھا ہو، اس کیلئے قرآن مجید کو اپنے طور پر پڑھنا اور سمجھنا ممکن نہ ہو۔ تب بھی وہ کم از کم قرآن مجید کی تلاوت ، ترجمہ اور تفسیر سن تو سکتا ہے۔ ایسے فرد کیلئے چھوٹ ہے کہ اسی سے کام چلائے۔ لیکن اپنے آپ کو پوری طرح ’سرینڈر‘ کردینا مناسب نہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے ارشادات (مفہوم ) ہیں کہ ہم نے یہ کتاب ساری انسانیت کیلئے نازل کی ہے۔ پھر تم اس میں غوروفکر کیوں نہیں کرتے؟ تم فرقوں میں نہ بٹ جاو، تم کمزور ہوجاوگے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ تم اتحاد قائم رکھو۔ تم ہی غالب رہوگے۔آج ہم فرقوں میں بٹ گئے ہیں، مسلکی اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں۔ کیا ہم ہمارے رب کے ارشادات کے خلاف عمل نہیں کررہے ہیں؟ اسی لئے دنیا کے گوشے گوشے میں ظلم کا شکار ہورہے ہیں۔
٭٭٭