کرسٹیانو رونالڈو کا سعودی عرب کے کنگ سعود یونیورسٹی اسٹیڈیم، ریاض میں منعقدہ ’سیری اے‘ (اٹالین پروفیشنل لیگ کامپٹیشن) میں گزشتہ ہفتے ڈیفنڈنگ چمپینس ’یوونٹس‘ کی طرف سے ’سمپڈوریا‘ کے خلاف لیگ میچ میں1 ۔ 2 کی کامیابی میں دم بخود کردینے والے ہائی جمپ ہیڈر کا سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیائے فٹبال میں چرچا ہے۔ پرتگالی اسٹار کرسٹیانو کا قد تقریباً "2۔ '6 ہے۔ سمپڈوریا کے خلاف فیصلہ کن گول اسکور کرنے والے ہیڈر کیلئے رونالڈو کے ہائی جمپ کی پیمائش 2.56 میٹر ( 8.39 فیٹ) ہوئی ہے جبکہ ’کراس بار‘ کی اونچائی 8 فیٹ ہوتی ہے۔ تاہم، چند روز بعد رونالڈو کی ٹیم کو ’سوپرکوپا‘ 2019 فائنل میں ’لازیو‘ کے مقابل 3 ۔ 1 سے شکست ہوگئی۔ یوونٹس کا واحد گول رونالڈو نے اسکور کیا۔
میرے لڑکپن میں کپل دیو کی قیادت میں انڈیا نے ویسٹ انڈیز جیسی طاقتور ٹیم کو شکست دے کر ورلڈ کپ جیتا تھا۔ میں فطری طور پر کرکٹ کی طرف مائل ہوا۔ زائد از دو دہے تک میں خوب کرکٹ کھیلا۔ یہ اور بات ہے کہ میری کرکٹ مقامی سطح اور کالج لیول سے آگے نہیں بڑھ سکی، مجھے کوئی افسوس نہیں، کیونکہ ماضی پر افسوس کرتے رہنے سے حاصل کچھ نہیں ہوتا، الٹا حال و مستقبل خراب ہونے کے اندیشے پیدا ہوجاتے ہیں۔ اسپورٹس میں ہر کھیل کسی نہ کسی طرح دیگر کھیلوں سے جڑا ہوتا ہے۔ چنانچہ مجھے کئی دیگر کھیلوں سے بھی دلچسپی رہی اور کالج لیول پر میں نے کھیلے بھی ہیں۔
غیرمعمولی رونالڈو ہیڈر کے پس منظر میں میرا موضوع ’انڈین فٹبال‘ ہے، جو 1952 سے 2019 تک اس قدر پچھڑ گیا ہے کہ اسوسی ایشن فٹبال کی انٹرنیشنل گورننگ باڈی ’فیفا‘ (فیڈریشن انٹرنیشنل ڈی فٹبال اسوسی ایشن) کی تازہ ترین درجہ بندی میں گزشتہ اَپ ڈیٹ کے مقابل گھٹ کر اب اس کا رینک 104 ہے۔ چھ ریجنل کنفڈریشنس افریقا، ایشیا، یورپ، نارتھ اینڈ سنٹرل امریکا و کریبین، اوشیانیا اور ساوتھ امریکا پر محیط فیفا کی عددی رکنیت 211 ہے۔ ہر چار سال بعد منعقد ہونے والے فیفا ورلڈ کپ میں موجودہ طور پر 32 ممالک کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ ہندوستان کا اعظم ترین رینک 1952 میں 30 (تیس) تھا اور اقل ترین رینک 2015 میں 173 درج ہوا تھا۔ بے شک، تقریباً پانچ سال میں انڈیا بہتری کے ساتھ 104 تک آچکا ہے مگر یہ بھی دیکھیں کہ ہماری نیشنل ٹیم 1952 کی بہترین پوزیشن سے تقریباً 68 سال میں کتنی پست ہوچکی ہے۔
ہندوستان نے کبھی فیفا ورلڈ کپ نہیں کھیلا ہے۔ یہ نہایت حیرانی کی بات ہے کیونکہ آزادی کے بعد والے دہے میں ہمارا ورلڈ رینک 30 تھا۔ پھر کیا وجوہات ہیں کہ انڈین فٹبال کبھی آگے نہ بڑھ سکا۔ فوری طور پر یہ وجوہات ذہن میں آسکتی ہیں کہ ہندوستان میں کرپشن بہت ہے، ٹیم سلیکشن میں تعصب و تنگ نظری سے کام لیا جاتا ہے، حکومتوں نے فٹبال کو بڑھاوا نہیں دیا، وغیرہ۔ بلاشبہ، یہ بھی اہم وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن یہی حالات میں کرکٹ، قومی کھیل ہاکی، (لان) ٹینس، بیڈمنٹن، شطرنج، باکسنگ، ٹیبل ٹینس، اتھلیٹکس ، حتیٰ کہ برج گیم (تاش کے پتے) میں تک ہندوستانی ٹیموں اور انفرادی ہندوستانیوں نے بین الاقوامی سطح پر کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں مردوں (مین) کے ساتھ ساتھ ویمن کی ٹیموں اور انفرادی کھلاڑیوں نے بھی انڈیا کا نام روشن کیا ہے۔
انڈین فٹبال کا ذکر ہو تو بنگال، حیدرآباد، گوا کی عظمت رفتہ (گریٹ پاسٹ) کو ضرور یاد کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد پولیس ٹیم کا زبردست شہرہ رہا ہے۔ حیدرآباد سے دیگر ٹیموں نے بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ یہی بات بنگال اور گوا کے تعلق سے بھی کہی جاسکتی ہے۔ جہاں تک حیدرآباد کا تعلق ہے، کئی باصلاحیت مسلم کھلاڑی ہمیشہ نمائندہ ٹیم کا حصہ ہوا کرتے تھے۔ حالیہ رونالڈو ہیڈر کا ذکر چھڑا تو میرے شناسائی اور فاونڈیشن فار ایفکٹیو لرننگ ٹکنیکس (فیلٹ) کے بانی مصطفےٰ پرویز نے نشاندہی کی کہ اس طرح کا ٹیلنٹ ہندوستان میں پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے لیکن افسوس کہ قوم اس کا فائدہ نہ اٹھا سکی۔ مصطفےٰ پرویز کے والد جی وائی ایس لئیق حیدرآباد پولیس ٹیم کے غیرمعمولی کھلاڑی رہے۔ وہ حیدرآباد پولیس اور ہندوستان کیلئے کھیلے، بین الاقوامی سطح پر عمدہ کارکردگی پیش کئے اور پہلے ایشین گیمز 1951 منعقدہ دہلی کے گولڈ میڈلسٹ رہے۔ لئیق مرحوم کے چھوٹے بھائی جی جی ایس شفیق بھی فٹبال کے ہنر میں کچھ کم نہ تھے۔ رونالڈو کے جس ہیڈر کا آج دنیا بھر میں چرچا ہے، ویسا ہیڈر شفیق مرحوم 1960 کے دہے میں لگا گئے، جو تصویر (زیرنظر) کی شکل میں محفوظ ہے۔
معلوم ہوا کہ انڈیا میں فٹبال ٹیلنٹ کی کمی نہیں رہی۔ مگر آج سنیل چھیتری کی قیادت میں انڈین ٹیم کبھی ایک قدم آگے بڑھتی تو پھر دو قدم پیچھے ہوجاتی ہے۔ پھر دو قدم آگے بڑھ کر ایک درجہ پچھڑ جاتی ہے۔ انڈین فٹبال کے ساتھ یہی ”سانپ سیڑھی“ کا کھیل کئی دہوں سے جاری ہے۔ یہی حال رہا تو ہندوستان ٹاپ 32 یا مستقبل میں شرکائے فیفا ورلڈ کپ کی تعداد بڑھانے کی صورت میں 36 یا 40 یا 44 یا 48 تک کب پہنچے گا کہ باوقار ٹورنمنٹ کھیل سکے۔ دنیا بھر کے چھوٹے چھوٹے ممالک جیسے یوکرین، کوریا، جمائیکا، گھانا، وغیرہ فیفا ورلڈ کپ کھیل چکے ہیں، جو انڈیا جیسے ’وشال‘ دیش کیلئے لمحہ فکر ہے۔
میرے خیال میں مسلم نوجوانوں کی پروفیشنل فٹبال سے دوری انڈین فٹبال کی پستی کی اہم وجہ ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کو زندگی کے تقریباً سارے شعبوں میں تنگ نظری و تعصب کا شکار بناتے ہوئے پستیوں میں ڈھکیلنے کی جب حکومتی کوششیں ہونے لگیں تو بھلا فٹبال کس طرح محفوظ رہ سکتا ہے؟ میرا ماننا ہے کہ ایک اور اہم وجہ فٹبال کے ساتھ قوم اور حکومتوں کا سوتیلا سلوک ہے۔ آزادی کے وقت سوائے ہاکی شاید ہی کسی کھیل میں ہندوستان کی نمایاں کارکردگی تھی۔ انڈین کرکٹ کو واقعتاً 1983 ورلڈ کپ فتح سے زبردست فروغ حاصل ہوا اور آگے چل کر راجیو گاندھی حکومت نے 1987 ریلائنس ورلڈ کپ کو انڈیا اور پاکستان میں منعقد کراتے ہوئے اس کھیل کی سرپرستی کی، جو پھر کبھی نہیں رکی، جس کا نتیجہ آپ دیکھ سکتے ہو کہ دنیائے کرکٹ میں ٹیم انڈیا کا نام آج احترام سے لیا جاتا ہے۔
قومی کھیل ہاکی کے معاملے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یورپی و دیگر اقوام نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ اسے نیچرل گراونڈ سے آسٹروٹرف پر کھیلنا لازمی بنا دیا، جس کے بعد نہ صرف انڈیا بلکہ پاکستان بھی اس کھیل میں پیچھے ہوتا گیا، کیونکہ غریب برصغیر میں آسٹروٹرف کی اتنی سہولتیں نہیں جیسے دیگر اقوام کے پاس ہیں۔ تاہم، فٹبال میں نیچرل گراونڈ یا بھری گھاس والے میدان سے اتنا فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی ہم آہنگ نہ ہوسکیں۔ چنانچہ میرے خیال میں انڈین فٹبال کی پستی کی بنیادی وجہ اس سے حکومتوں اور بزنس گروپس کی بے اعتنائی ہے۔
اگر فٹبالرز کو بھی کرکٹرز یا دیگر کھلاڑیوں کی طرح کریئر کی فراغت حاصل ہوجائے، ان کو معقول معاوضہ ملنے لگے اور قوم کی طرف سے ضروری حوصلہ افزائی حاصل ہوسکے تو کچھ عجب نہیں کہ ہندوستانی فٹبال دیگر کھیلوں کی طرح ترقی کرتا جائے۔ آخری بات کہنا چاہتا ہوں کہ جس کسی نوجوان کو پروفیشنل فٹبالر بننے میں دلچسپی ہو، وہ حالات سے پست ہمت ہوکر اپنی خواہش کا گلا نہ گھونٹے بلکہ حوصلے سے کام لے اور آگے بڑھے (اس میں والدین اور فیملی کا نمایاں رول ضروری ہے)۔ آج دنیا میں ضروری نہیں کہ کوئی کھلاڑی صرف نیشنل ٹیم کیلئے کھیلے، آپ دنیا بھر میں باوقار کلبس کیلئے کھیل سکتے ہو۔ اپنا ٹیلنٹ دنیا کو دکھائیں، آپ کے وطن میں حکومتوں اور بزنس گھرانوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
٭٭٭