مہندر سنگھ دھونی گزشتہ 15 سال سے انڈین کرکٹ سے جڑا نمایاں نام ہے۔ کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) نے سینئر مینس ٹیم کیلئے جمعرات کو سالانہ پلیئر ریٹینرشپ 2020-21 یعنی سنٹرل کنٹراکٹ کا اعلان کیا، اور فہرست سے غائب سب سے نمایاں نام سابق ورلڈ کپ وننگ کیپٹن دھونی کا ہے۔ یہ بات موضوع بحث بن گئی مگر حقیقت برقرار ہے کہ دھونی کا نام لسٹ میں شامل نہ ہونے سے کرکٹر کے کریئر کو فوری طور پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ 38 سالہ دھونی نے آخری مرتبہ ٹسٹ میچ ڈسمبر 2014 میں کھیلا تھا، ان کا آخری ٹی 20 مقابلہ فبروری 2019 میں رہا، اور ان کا آخری ونڈے انٹرنیشنل (او ڈی آئی) میچ جولائی 2019 میں ورلڈ کپ سیمی فائنل ہوا۔
ٹیم انڈیا کیلئے کوئی بھی فارمٹ میں تقریباً چھ ماہ سے نہ کھیلنے کی بناءدھونی سنٹرل کنٹراکٹ کیلئے غور نہیں کئے جاسکتے تھے۔ تاہم، میں نے دیکھا کہ سوشل میڈیا پر ایسے پوسٹ وائرل ہیں کہ دھونی نے مودی۔ شاہ حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کیا، اس لئے کنٹراکٹ سے محروم کردیئے گئے۔ دعویٰ کیا گیا کہ دھونی کو بی جے پی والوں نے حالیہ جھارکھنڈ اسمبلی الیکشن میں پارٹی ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کی پیشکش کی تھی، جسے دھونی نے منع کردیا۔ پھر بی جے پی والوں نے ان سے پارٹی کیلئے انتخابی مہم چلانے کی خواہش کی۔ دھونی نے دوبارہ انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں وہ کنٹراکٹ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سوشل میڈیا کے دعوے دار نے مزید ثبوت کے طور پر کہا کہ بورڈ ممبرز میں امیت شاہ کے بیٹے جئے شاہ ہیں، اس لئے دھونی کو کنٹراکٹ سے خارج کرنا آسان ہوگیا۔
آج ہندوستان میں ’کرکٹ اسٹارڈم‘ ملک کی کسی اہم شخصیت سے کم نہیں۔ دھونی واحد کرکٹر ہیں جو دو مختلف فارمٹ میں ورلڈ کپ جیتنے والی انڈین ٹیم کا بحیثیت کپتان حصہ رہے۔ دنیا میں شاید ہی ایسی مثال ہوگی۔ اس سے قطع نظر ایک خاص بات یہ ہے کہ دھونی کو ان کے کریئر کے دوسرے نصف میں بڑی مائنارٹی نے تعصب کا شکار ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ یعنی بی جے پی کیلئے سازگار ذہنیت ہوئی۔ ایسا شخص جو مستقبل قریب میں کام آسکتا ہے، اسے سورو گنگولی جیسے بے باک لیڈر والے بورڈ کا ممبر جئے شاہ کنٹراکٹ سے محروم کرائے گا، بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر دھونی کو غیرجانبدار مان لیا جائے تو یہ بھی دیکھا جائے کہ وکٹ کیپر۔ بیٹسمن نے ابھی وائٹ گیند والے فارمٹ سے اپنے ریٹائرمنٹ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ چنانچہ کنٹراکٹ میں نام شامل نہ ہونے کا مطلب نہیں کہ اس کھلاڑی کو مستقبل میں کوئی سلیکشن کیلئے غور نہیں کیا جائے گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دھونی کو بورڈ نے کنٹراکٹ میں تبدیلی کے تعلق سے پیشگی آگاہ کردیا تھا۔
غیرمعمولی کرکٹر سچن تنڈولکر 24 سال انٹرنیشنل کرکٹ کھیلتے رہے جو شاید کسی نے نہیں کیا۔ اور ہندوستان میں 40 سال کی عمر تک انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے والے بھی وہ واحد کرکٹر ہیں۔ دھونی عمر کے اعتبار سے سچن کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ دھونی کے کارنامے سچن سے مختلف نوعیت کے ہیں مگر کم درجہ کے نہیں ہیں۔ دھونی نے فوری طور پر جھارکھنڈ رانجی ٹیم کے ساتھ ٹریننگ شروع کردی ہے۔ لہٰذا، واضح ہے کہ وہ ابھی سبکدوش نہیں ہورہے ہیں۔ وہ آئی پی ایل 2020 کھیلیں گے اور عمدہ پرفارمنس انھیں ورلڈ ٹی 20 اسکواڈ کیلئے اہل بنا سکتا ہے۔بی سی سی آئی عہدہ دار نے بتایا کہ دھونی واحد کھلاڑی نہیں جو ٹیم انڈیا کیلئے کافی عرصہ نہ کھیلنے کے باوجود اپنے ریٹائرمنٹ کا اعلان نہیں کئے ہیں۔ ہربھجن سنگھ نے 2015-16 سے نہ کھیلنے کے باوجود اپنی سبکدوشی کا اعلان نہیں کئے ہیں۔ دھونی نمایاں شہ سرخی والے کرکٹر ہیں اور لوگ ایسی شہ سرخیوں کو پسند کرتے ہیں۔
عہدہ دار نے مزید وضاحت کی کہ کئی ابھرتے کرکٹرز کو کنٹراکٹ میں جگہ نہیں ملی۔ کیا یہ مطلب ہے کہ وہ سلیکشن کمیٹی کے منصوبوں کا حصہ نہیں ہیں؟ فنی اعتبار سے دھونی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے اپنے ریٹائرمنٹ کا اعلان نہیں کرسکتے کیونکہ وہ آئی پی ایل کھیلنے والے ہیں۔ کوئی انڈین کرکٹر اگر بیرون ملک کرکٹ کھیلنا چاہتا ہے یا میدان سے باہر کوئی کرکٹ سے متعلق سرگرمی سے خود کو وابستہ کرنا چاہتا ہے تو اسے لازمی طور پر سبکدوش ہونا پڑتا ہے۔ دھونی کا ایسا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یوراج سنگھ نے کناڈا میں کھیلنے کی خواہش کی بناءریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔
جہاں تک بی سی سی آئی سنٹرل کنٹراکٹ کی بات ہے، وہاں ملک کی سب سے بڑی اقلیت سے تعصب نظر آرہا ہے۔ گریڈ اے پلس (7 کروڑ روپئے)، گریڈ اے (5 کروڑ)، گریڈ بی (3 کروڑ)، گریڈ سی (1 کروڑ روپئے) جملہ چار گریڈز ہیں۔ گریڈ اے پلس میں صرف تین کھلاڑی ویراٹ کوہلی، روہت شرما اور جسپریت بومرا ہیں۔ باقی تین گریڈز میں 24 کھلاڑی ہیں۔ مجموعی طور پر کنٹراکٹ والے 27 کھلاڑیوں میں صرف 1 مسلم محمد سمیع کو شامل کیا گیا ہے جو محض 0.27 فیصد ہے جبکہ مسلم آبادی تقریباً 15 فیصد ہے۔
٭٭٭